وقت آ گیا ہے کہ پناہ گزینوں کے حوالہ سے قومی پالیسی تشکیل دی جائے، وفاق اور صوبوں سمیت سب کو اس حوالہ سے قومی حکمت عملی وضع کرنا ہو گی، ان ہاؤس تبدیلی کے حوالہ سے باتیں محض مفروضہ ہیں، ارکان قومی اسمبلی کے مسائل حل کئے جائیں گے، کراچی میں دہشت گردی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان میں واضح کمی لیکن دیگر جرائم میں اضافہ ہوا ہے، پولیس کی استعداد کار بہتر بنانے کی ضرورت ہے

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی صحافیوں کے اعزاز میں افطار ڈنر کے موقع پر گفتگو

جمعرات 30 جون 2016 21:47

اسلام آباد ۔ 30 جون (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔30 جون ۔2016ء) وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پناہ گزینوں کے حوالہ سے قومی پالیسی تشکیل دی جائے اور پناہ گزینوں کے قوانین کے مطابق ان کو رکھا جائے، وفاق اور صوبوں سمیت سب کو اس حوالہ سے قومی حکمت عملی وضع کرنا ہو گی، ان ہاؤس تبدیلی کے حوالہ سے باتیں محض مفروضہ ہیں اور بے پرکی اڑائی جا رہی ہے، ارکان قومی اسمبلی کے مسائل حل کئے جائیں گے، کراچی میں دہشت گردی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان میں واضح کمی لیکن دیگر جرائم میں اضافہ ہوا ہے، پولیس کی استعداد کار بہتر بنانے کی ضرورت ہے، جنہوں نے اپنے دور میں کرپشن کے سوا کچھ نہیں کیا آج وہ کرپشن کے خلاف لیکچر دے رہے ہیں، بلاول بھٹو زرداری اور ان کے خاندان کی دبئی میں اربوں کی پراپرٹی ہے ان سے ان کی ٹیکس ریٹرنز کے بارے میں بھی پوچھا جائے، حکومت کرپشن کے خلاف کارروائی کرے گی تو سیاسی انتقام کا شور مچایا جائے گا۔

(جاری ہے)

جمعرات کو یہاں پنجاب ہاؤس میں صحافیوں کے اعزاز میں افطار ڈنر کے موقع پر غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ ان ہاؤس تبدیلی کے حوالہ سے جو باتیں کی جا رہی ہیں یہ محض مفروضوں پر مبنی ہیں، وزیراعظم کے استعفیٰ کے حوالہ سے بھی بے پرکی اڑائی جا رہی ہے، اس طرح کا سرے سے کوئی معاملہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عید کے بعد واپس آ جائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ موٹر سائیکل اور موٹر وہیکلز رجسٹریشن کا سنٹرل سسٹم ہونا چاہئے، اس کیلئے سافٹ ویئر ڈویلپ کرنا پڑے گا جس پر کروڑوں کی لاگت آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالہ سے ایک خاکہ تیار کیا گیا ہے جسے عید کے بعد ہونے والے اجلاس میں صوبوں کے ساتھ شیئر کیا جائے گا، موٹر وہیکلز رجسٹریشن سے حاصل ہونے والا ریونیو صوبوں سے شیئر کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ سسٹم سے بہت سے لوگوں کے مفادات وابستہ ہیں، ہر گاڑی کی نمبر پلیٹ پڑھنے اور اسے محفوظ کرنے کا سسٹم رائج کرنے کا خاطر خواہ فائدہ ہو گا اور اس سے جرائم کی روک تھام میں بہت مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کرائمز فگرز کا سنٹرل ڈیٹا بھی قائم کیا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیکورٹی ایجنسیز نے گذشتہ عرصہ کے دوران بیش بہا قربانیاں دی ہیں جس سے سیکورٹی کی صورتحال میں بہت بہتری آئی ہے اور دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملی ہے۔

افغان پناہ گزینوں کے حوالہ سے سوال پر انہوں نے کہا کہ افغان پناہ گزینوں کا مسئلہ انتہائی سنجیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کا بہت بڑا بوجھ اٹھایا ہوا ہے، جن اصولوں کی بنیاد پر پناہ گزین پاکستان آئے تھے ایک ایک کرکے ان تمام اصولوں کو پامال کیا گیا، قاعدہ کے تحت وہ کیمپوں میں مقیم نہیں رہے، بین الاقوامی برادری نے پناہ گزینوں کے حوالہ سے پاکستان کی مدد کرنا تھا، اب مدد کرنا تو درکنا اس مسئلہ پر کسی کی توجہ ہی نہیں ہے، بطور پناہ گزین وہ کسی قسم کا کاروبار نہیں کر سکتے نہ ہی جائیدادیں خرید سکتے ہیں لیکن اس کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملہ پر وفاق اور صوبوں کو یا ہمیں ایک دوسرے سے اختلاف کرنے کی بجائے قومی حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔ وزیر اعظم کی وطن واپسی کے بعد وزراء اعلیٰ کو بھی اجلاس میں بلایا جائے گا اور اس حوالہ سے قومی پالیسی تشکیل دی جائے گی، وقت آ گیا ہے کہ اب اس حوالہ سے پالیسی بنائی جائے اور پناہ گزینوں کے قوانین کے مطابق ان کو رکھا جائے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر کوئی غیر قانونی طور پر شہریت حاصل کرنے والا افغانی خود آ کر اپنی شہریت سرنڈر کر دے تو اسے پناہ گزین کی حیثیت دی جائے گی بصورت دیگر پکڑے جانے کی صورت میں اسے گرفتار کرکے ڈی پورٹ کیا جائے گا، اس حوالہ سے دو ماہ بعد اجلاس ہو گا جس میں حتمی فیصلے کئے جائیں گے۔ قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران بار بار کورم کا معاملہ پیدا ہونے سے متعلق سوال پر وزیر داخلہ نے کہا کہ بجٹ خوش اسلوبی سے پاس ہوا اور کہیں بھی ہماری تعداد میں کمی کا مسئلہ پیش نہیں آیا، ارکان اسمبلی حکومت کی زیادہ سپورٹ اور مسائل کا حل چاہتے ہیں، وزیراعظم کی وطن واپسی کے بعد اس معاملہ کی جانب زیادہ توجہ دی جائے گی۔

کراچی آپریشن کے حوالہ سے سوال پر وزیر داخلہ نے کہا کہ کراچی آپریشن کے کپتان وزیراعلیٰ سندھ ہی ہیں، ان کے علاوہ کوئی اس آپریشن کا کپتان نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں دہشت گردی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان میں جہاں نمایاں کمی آئی ہے وہاں دیگر جرائم میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے، پولیس کی استعداد کار میں اضافہ، بہتر ریکروٹمنٹ اور پولیس کو آرمرڈ وہیکلز اور جدید اسلحہ فراہم کرنے سے صورتحال بہتر ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ فوج پولیس کی بھرتی اور 2 ہزار سابق فوجیوں کی بھرتی کے حوالہ سے مکمل تعاون کرے گی، سندھ میں پولیس کے کردار کو مزید فعال بنایا جائے گا۔ پانامہ لیکس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے حالیہ بیانات کے حوالہ سے سوال پر وزیر داخلہ نے کہا کہ جنہوں نے اپنے ادوار میں کرپشن کے سوا کوئی کام نہیں کیا آج وہ کرپشن کے خلاف لیکچر دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سرے محل کی ملکیت سے مسلسل انکار کرتے رہے اور برطانوی عدالت میں جونہی کیس آیا تو فوراً مان لیا کہ یہ ان کی ملکیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری سے پوچھا جائے کہ ان کی، ان کے والد کی اور خاندان کے دیگر افراد کی دبئی میں اربوں کی پراپرٹی ہے، انہوں نے کتنا ٹیکس ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کرپشن کا شور مچانے والوں سے پوچھنا چاہئے کہ کیا پانامہ لیکس ہی آغاز اور اختتام ہے، بے شک پانامہ لیکس کی بھی انکوائری ہونی چاہئے اور وزیراعظم نے خود اس کی پیشکش کی ہے لیکن جو خود سر سے پاؤں تک کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں ان سے بھی پوچھا جانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ کرپشن کے خلاف کارروائی کسی بھی جمہوری ملک میں حکومت نہیں کرتی کیونکہ اگر حکومت سیاسی قیادت کے خلاف کرپشن کے الزامات میں کارروائی کرے گی تو سیاسی انتقام کا شور بلند کیا جائے گا، کرپشن کے خلاف ادارے کام کرتے ہیں، نیب کا آئینی ادارہ موجود ہے جو اس حوالہ سے کارروائی کر سکتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کے حالیہ انٹرویو سے متعلقہ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کی پاکستان کے حوالہ سے ہر بات کو سنجیدہ نہیں لینا چاہئے، وہ پاکستان میں تقسیم دیکھنا چاہتے ہیں، ان کا اپنا اینگل ہے، ہندو انتہاء پسند امن نہیں چاہتے جن کے زیر اثر مودی کی پارٹی ہے۔

ایک سوال پر وزیر داخلہ نے کہا کہ موجودہ حکومت کیلئے بڑے چیلنج لوڈشیڈنگ کا خاتمہ، اقتصادی صورتحال کی بہتری اور سلامتی کی صورتحال کو بہتر بنانا جیسے مسائل ہیں، اسٹیبلشمنٹ کوئی چیلنج نہیں ہے۔