پنجاب سروس ٹربیونل کو توہین عدالت کے ملنے والے اختیار کے بعد سرکاری ملازمین اپنی داد رسی کے لئے بڑی تعداد میں ٹربیونل سے رجوع کرنے لگے۔ گذشتہ ایک سال کے دوران ٹربیونل نےپنجاب کے سرکاری ملازمین کی چھ ہزار سات سو بتیس درخواستوں اور اپیلوں کا فیصلہ سنا دیا۔

Umer Jamshaid عمر جمشید جمعرات 30 جون 2016 15:15

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔30 جون۔2016ء) پنجاب کے سرکاری ملازمین نے اپنی برطرفیوں،معطلیوں،تقررو تبادلوں ،،سنیارٹی نظر انداز ہونے ،،پینشن اور سروس سے متعلقہ محکمانہ زیادتیوں کے خلاف بڑی تعداد میں پنجاب سروس ٹربیونل سے رجوع کیا۔ گذشتہ ایک سال کے دوران سرکاری ملازمین کی جانب سے چھ ہزار ایک سو ستاسی درخواستیں اور اپیلیں دائر کی گئیں ۔

ٹربیونل کے ججز نے مجموعی طور پر چھ ہزار سات سو بتیس درخواستوں پر فیصلہ سنایا۔ججز کی کمی کی بناء پر پہلے سے زیر التواء سات ہزار دو سو89پرانے مقدمات نہ نمٹائے جا سکے۔ٹربیونل کے ججز نے ماہانہ کی بنیاد پر راولپنڈی،،ملتان،،بہاولپور اور فیصل آبادکے اضلاع میں جا کرمقدمات نمٹائے اورسرکاری ملازمین کو ان کی دہلیز پر انصاف فراہم کیا۔

(جاری ہے)

وکلاء کا کہنا ہے کہ ٹربیونل کے چئیرمین جسٹس ریٹائرڈ شاہد سعید،،اور عدلیہ سے تعلق رکھنے والے جوادالحسن اور اشترعباس کی مجموعی کارکردگی دیگر تین بیوروکریٹ ممبران فہمیدہ مشتاق،خالد رامے اور مقصود احمد لک کے برعکس زیادہ تسلی بخش رہی۔بیوروکریٹ ممبران کو عدالتی امور کا تجربہ نہ ہونے کے سبب مشکلات کا سامنا بھی رہا جبکہ قوانین سے آگہی نہ ہونے کی بناء پر ان کی کارکردگی غیر تسلی بخش رہی۔

سروس ٹربیونل کے جج جوادالحسن کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے ٹربیونل کو توہین عدالت کے اختیارات اور ٹربیونل کے فیصلوں پر عمل درآمد کے اختیار کا تاریخی فیصلہ سنایا جس کے بعد سرکاری ملازمین محکمانہ زیادتیوں کے خلاف اپنی داد رسی کے لئے اس فورم سے بڑی تعداد میں رجوع کر رہے ہیں۔وکلاء نے مطالبہ کیا ہے کہ پنجاب سروس ٹربیونل میں عدالتی ممبران کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ زیر التواء پرانے مقدمات بھی جلد نمٹائے جا سکیں۔

متعلقہ عنوان :