افغان مہاجرین اور بارڈر مینجمنٹ سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کر نے کی ضرورت ہے , مصدق ملک

جمعرات 30 جون 2016 13:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔29 جون ۔2016ء)وزیراعظم کے ترجمان ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ افغان مہاجرین اور بارڈر مینجمنٹ سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کر نے کی ضرورت ہے , عمران خان قومی مسائل پر ہمیشہ اشتعال انگیز بیان دیتے آئے ہیں جو ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے سٹریٹجک اور تاریخی تعلقات ہیں جو دونوں ملکوں کیلئے فائدہ مند ہیں اس لئے ضروری ہے کہ افغان مہاجرین اور بارڈر مینجمنٹ سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے، ہمیں سٹریٹجک گہرائی کو سٹریٹجک علیحدگی میں نہیں بدلنا چاہیے اور افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملے کو دوستانہ ماحول میں حل کرنا چاہیے۔

(جاری ہے)

ایک سوال کے جواب میں ترجمان وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے کئی دہائیاں افغان مہاجرین کی بہترین میزبانی کی ہے اس لئے اب افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل بھی احترام اور باوقار ہونا چاہیے، پہلے پاکستان اور افغانستان کو اپنے مسائل کو حل کرنا چاہیے، دہشتگردی خودبخود ختم ہو جائے گی اور افغان مہاجرین واپس اپنے وطن چلے جائیں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال کے عرصے میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت غیرقانونی طور پر یہاں مقیم تقریباً 1.4 ملین افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کی گئی ہے۔

پاکستان نے افغان مہاجرین کی میزبانی کی عالمی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا ہے اور اب ہمیں انکی وطن واپسی کیلئے ایک طریقہ کار وضع کرنا ہوگا تاکہ انکی واپسی کے عمل کو یقینی بنایا جا سکے۔ مصدق ملک نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی تمام ہمسایہ ممالک سے بہتر اور اچھے تعلقات پر مبنی ہے لہذا ہمارے ہمسایوں کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اسی پالیسی پر عمل کریں تاکہ خطے کے امن کو یقینی بنایا جا سکے۔

پاکستان افغان شہریوں کی غیر قانونی نقل و حرکت کو روکنے کیلئے بارڈر مینجمنٹ سسٹم کو بہتر بنا رہا ہے جس کی توثیق افغانستان نے بھی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان قومی مسائل پر ہمیشہ اشتعال انگیز بیان دیتے آئے ہیں جو ملک و قوم کے مفاد میں نہیں لہذا انہیں ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے اور وفاقی حکومت کی تمام ہمسایہ ملکوں سے بہتر اور خوشگوار تعلقات کی پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بیان دینا چاہیے۔