استنبول کے اتاترک بین الاقوامی ایئر پورٹ پر دھماکوں اور فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد41 ہو گئی ہے جبکہ230کے قریب زخمی

زخمیوں اور ہلاک شدگان میں غیر ملکی بھی شامل ہو سکتے ہیں تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔ترک وزیراعظم پاکستان‘امریکا سمیت دنیا بھر کے راہنماﺅں کے مذمتی بیانات ‘ترکی پچھلے3سالوں سے دہشت گردوں کے نشانے پر ہے‘دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے سیاحوں کی آمد میں کمی واقع ہوئی ہے:تجزیہ نگار

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 29 جون 2016 10:25

استنبول کے اتاترک بین الاقوامی ایئر پورٹ پر دھماکوں اور فائرنگ کے نتیجے ..

استبول(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔29جون۔2016ء) استنبول کے اتاترک بین الاقوامی ایئر پورٹ پر دھماکوں اور فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد41 ہو گئی ہے جبکہ 230کے قریب زخمی ہیں جن میں سے درجنوں کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے-مقامی ذرائع ابلاغ نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہرکیا ہے-سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جاری ہونے والی ویڈیو میں ایک پولیس افسر ایک حملہ آور پر فائرنگ کر کے اسے زخمی کرتا ہے۔

فرش پر پڑا زخمی حملہ آور اسی دوران خود کو دھماکے سے اڑا دیتا ہے۔ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے سرکاری طورپر دھماکوں میں 41 افراد کے ہلاک اور 200 سے زیادہ کے زخمی ہو نے کی تصدیق کی ہے۔انھوں نے کہا ہے کہ زخمیوں اور ہلاک شدگان میں غیر ملکی بھی شامل ہو سکتے ہیں تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔

(جاری ہے)

وزیراعظم کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حملوں میں خود کو دولتِ اسلامیہ کہنے والی شدت پسند تنظیم ملوث ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ استنبول ایئر پورٹ پر حملوں کا مقصد معصوم لوگوں کے خون اور تکلیف کے ذریعے ان کے ملک کے خلاف پروپیگنڈا کرنا ہے۔انھوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن موقف اپنائے۔استنبول کے گورنر واسب ساہن نے صحافیوں کو بتایا تین خودکش حملہ آوروں نے یہ حملہ کیا۔دھماکوں کے فوری بعد وزیر انصاف باقر بوزدق نے کہا اطلاعات کے مطابق ایک دہشت گرد بین الاقوامی روانگی کے ٹرمینل میں داخل ہوا اور پہلے کلاشنکوف سے فائرنگ کی اور بعد میں خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔

عینی شاہدین کے مطابق دھماکوں کے فوری بعد زخمیوں کو وہاں کھڑی ٹیکسیوں کے ذریعے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ سکیورٹی اہلکاروں نے مشتبہ حملہ آوروں کو ہوائی اڈے کے داخلی راستے پر روکنے کے لیے فائرنگ کی۔ایئر پورٹ پر حملے کے بعد پروازوں کو منسوخ کر دیا گیا ہے اور یہاں اترنے والی پروازوں کو متبادل ہوائی اڈوں کی جانب موڑا جا رہا ہے۔دھماکوں کے وقت ایئر پورٹ پر موجود جنوبی افریقہ کے دو سیاحوں پال اور سوزی رو¿س کے مطابق وہ واپس اپنے ملک جانے کے لیے ایئر پورٹ پر پہنچے تھے۔

انھوں نے بتایا ہم پروازوں کی آمد کے ٹرمینل سے سڑھیوں کے ذریعے اوپری منزل پر روانگی کے ٹرمینل پر پہنچے کہ اس دوران فائرنگ شروع ہو گئی، وہاں ایک شخص فائرنگ کر رہا تھا اور اس نے کالے رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے اور اس کے ہاتھ میں دستی بم تھا۔حملے میں بچ جانے والے عثمان اکثر کا کہنا ہے میں ایئر پورٹ پر اپنے تین سوٹ کیسوں کو ریپ کروا رہا تھا کہ اچانک میں نے دھماکے کی آواز سنی۔

پولیس نے ہمیں نیچے لیٹ جانے کو کہا۔ سوٹ کیسوں پر کور چڑھانے والی مشین کی وجہ سے ہم فائرنگ کے تبادے سے محفوظ رہے۔انھوں نے بتایا کہ پولیس جب کہ پولیس حملہ آوروں پر فائرنگ کر رہی تھی کہ ا±س کے بعد ایک اور دھماکا ہوا اور ہمارے ارد گرد تمام افراد اس دھماکے میں ہلاک ہو گئے۔گذشتہ ایک سال سے ترکی میں کردش ملیشیا اور دولتِ اسلامیہ کے حملوں سے سیاحت کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

استنبول پر حملے کے بعد امریکی وزارت خارجہ نے امریکی شہریوں کے لیے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عوامی اور سیاحتی مقامات پر جاتے وقت ہوشیار رہیں۔استنبول کا کمال اتاترک ایئر پورٹ یورپ کا تیسرا مصروف ترین ہوائی اڈہ ہے اور گذشتہ برس چھ کروڑ دس لاکھ مسافروں نے اسے استعمال کیا۔ ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے واقعے کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں اسے داعش کی کارروائی قرار دیا۔

یلدرم کا کہنا تھا کہ حملہ آور ٹیکسی میں آئے اور آٹومیٹک رائفل کی مدد سے مسافروں پر فائرنگ شروع کردی اور پھر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔حکام کے مطابق پولیس نے حملہ آوروں کے چیک پوسٹ پر پہچنے سے قبل ان کو روکنے کے لیے ان پر فائرنگ بھی کی تھی تاہم حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔واقعے کے بعد پولیس ، فائر فائٹرز اور فرانسک آفیسرز بھی جائے وقوع پر پہنچ گئے۔

ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کری گئی۔دھماکوں کے بعد ایئرپورٹ کو سیل کردیا گیا جبکہ پروازوں کا رخ موڑ دیا گیا۔عینی شاہدین کے مطابق دھماکوں کے بعد انھوں نے کئی لاشوں کو شیٹوں کی مدد سے ڈھکا ہوا دیکھا، ہر جگہ مسافروں کا سامان بکھرا ہوا تھا، جبکہ ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں کی کرچیاں جابجا پڑی نظر آئیں۔ایک عینی شاہد محمد عبداللہ نے کوئی آیا اور اس نے فائرنگ شروع کردی اور میری بہن نے بھاگنا شروع کردیا، مجھے نہیں معلوم وہ کس راستے کی طرف گئی، جس کے بعد میں نیچے گر گیا، میں اس وقت تک فرش پر تھا، جب تک فائرنگ ختم نہ ہوگئی، اس کے بعد مجھے اپنی بہن نہیں ملی۔

واقعے کے بعد ترک صدر طیب اردگان نے کہا کہ ایئر پورٹ پر خود کش دھماکے کا مقصد معصوم عوام کو قتل کرکے ملک کو نقصان پہنچانا ہے۔انھوں نے پوری دنیا خصوصاً مغربی ممالک پر زور دیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کریں۔پاکستان نے استبول ایئرپورٹ پر ہونے والے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے ایک بیان میں کہا کہ ہم ہر ممکن طریقے سے دہشت گردی کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہیں۔

مزید کہا گیا کہ پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ترکی کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔وزیراعظم نواز شریف نے بھی ترکی دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دکھ کی اس گھڑی میں پاکستان ترک حکومت اور عوام کے ساتھ ہے۔امریکی صدر براک اوباما نے بھی ترکی میں دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف ترکی کے ساتھ ہیں۔

ابھی تک واقعے کی ذمہ داری کسی کی جانب سے قبول نہیں کی گئی تاہم حالیہ دنوں میں کرد عسکریت پسندوں، داعش اور بائیں بازو کی دیگر تنظیموں کی جانب سے ترکی کے مختلف شہروں میں بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔گذشتہ ماہ 10 مئی کو ترکی کے جنوب مشرقی شہر دیارِباقر میں ایک کار بم دھماکے کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور 45 زخمی ہوگئے تھے۔اس سے قبل رواں برس 28 اپریل کو بھی ترکی کے شہر بورسا میں ایک خاتون خود کش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں 13 افراد زخمی ہوگئے۔جبکہ رواں سال مارچ میں بھی دیارِباقر میں ایک کار بم دھماکے میں 7 پولیس اہلکار ہلاک اور 27 افراد زخمی ہوگئے تھے۔

متعلقہ عنوان :