پانامہ لیکس پر اپوزیشن کو عدالتی کمیشن بنوانے کیلئے ایک بار پھر متحد ہونا ہوگا ‘جماعت اسلامی

الیکشن کمیشن خود ابھی تک نامکمل ہے اگر عدالتی کمیشن نہ بنا تو عید کے بعد عوام سڑکوں پر ہوں گے‘افطار ڈنرپر خطاب

منگل 28 جون 2016 22:51

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔29 جون ۔2016ء ) قائمقام امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس پر اپوزیشن کو عدالتی کمیشن بنوانے کیلئے ایک بار پھر متحد ہونا ہوگا کیونکہ الیکشن کمیشن خود ابھی تک نامکمل ہے اگر عدالتی کمیشن نہ بنا تو عید کے بعد عوام سڑکوں پر ہوں گے، جماعت اسلامی24جولائی کو راولپنڈی سے کرپشن کیخلاف پیدل مارچ کا آغاز کرے گی کیونکہ ملک میں سالانہ8سو ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے۔

وہ جماعت اسلامی ضلع ملتان کے زیر اہتمام صحافیوں، کالم نگاروں کے اعزاز میں دیئے گئے افطار ڈنر سے خطاب کررہے تھے۔ امیر جماعت اسلامی ضلع ملتان میاں آصف محموداخوانی ، سیکر ٹری اطلاعات جنوبی پنجاب کنور محمد صدیق نے بھی خطاب کیا۔

(جاری ہے)

لیاقت بلوچ نے کہا کہ ملک میں کرپشن کی انتہا ہوچکی ہے ناجائز کام کرانے پر سالانہ 5سو ارب روپے کی رشوت دی جاتی ہے پانامہ لیکس ، دبئی لیکس کے ذریعے ہونیوالی کرپشن ہمارے سامنے ہے ۔

نیب کے سرد خانے میں 175 میگا کیسز موجود ہیں جبکہ ایف آئی اے میں بھی لاتعداد کیس موجود ہیں۔ پانا مہ لیکس پر اگرچہ تمام سیاسی جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ عدالتی کمیشن بنایا جائے خود وزیر اعظم نے قوم اور پارلیمنٹ سے خطاب میں بھی عدالتی کمیشن کے قیام کی بات لیکن جب پارلیمانی کمیٹی بنی تو ریاست کی جانب سے نااہلی سامنے آئی جس کی وجہ سے پارلیمانی کمیٹی پر سیاسی جماعتوں نے عدم اطمینان کیا ۔

انہوں نے کہا کہ بلا امتیاز احتساب کیلئے عدالتی کمیشن بننا ضروری کیونکہ پارلیمانی کمیٹی میں وزراء نے ایسا رویہ اختیار کیا جس سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے اورٹی اوآرز کمیٹی میں شامل وزراء شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنے ہوئے ہیں۔ عوام بے رحمانہ احتساب چاہتے ہیں اگر ایسا احتساب نہ ہوا تو جمہوریت ، آئین اور عدالتوں کیلئے خطرناک ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی اپنی رائے پر الیکشن کمیشن میں ریفرنس کیلئے گئے ہیں لیکن اس وقت الیکشن کمیشن نا مکمل ہے عید کے بعد تمام جماعتوں کو مل بیٹھ کر ازسرنو پانامہ لیکس پر عدالتی کمیشن تشکیل دینے کیلئے دباؤ بڑھا نا چاہئے کیونکہ بلا امتیاز احتساب کیلئے عدالتی کمیشن کا قیام ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی بجٹ کے باوجودیہ بات صاف دکھائی دے رہی ہے کہ ملک کانظام چلانے کیلئے کشکول پھیلا یا جارہا ہے اور ملک قرضوں پر چل رہا ہے۔

بجٹ سے پہلے این ایف سی ایوارڈ طے ہونا چاہئے تھا اور قومی آمدن کی منصفانہ تقسیم ہونی چاہئے تھی لیکن پنجاب چونکہ بڑا صوبہ ہے اس لئے جنوبی پنجاب میں آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم نہیں ہورہی اور 40فی صد کم اخراجات کئے جارہے ہیں جس سے محرومیوں میں اضافہ ہورہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں بلدیاتی انتخابات ہوئے لیکن انہیں اختیارات نہیں دیئے گئے ۔

زراعت قومی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ نے دودو بار کسان پیکج کا اعلان کیا لیکن ان پر عملہ در آمد نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کسان پیکج کو ہوا میں کیوں اُڑا دیا گیا اب بجٹ میں کسان پیکج کا اعلان کیا گیا لیکن چھوٹے کاشتکار آج بھی محرومیوں کا شکار ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ کرپشن ہے اور بھارت سے زرعی اجناس منگوا کر ملکی زراعت کو تباہ کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ نہ ہونے کے باعث خارجہ پالیسی نہ صرف ناقص بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ حیرانی کی بات ہے کہ مشیر خارجہ کہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کامیابی سے جا ری ہے یہ بیان عوام سے مذاق کے مترادف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے کے بحران کے وقت وزیر اعظم کوملک میں ہونا چاہئے تھا ۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی برطانیہ میں سرگرمیوں سے اندازہ ہورہا ہے کہ وہ تندرست ہوچکے ہیں اورانہیں اب ملک میں واپس لوٹ آنا چاہئے۔

اسی طرح اب خارجہ امور کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم کو فوری طور پر پاکستان میں ہونا چاہئے ۔ ملکی آئین کے مطابق اگر وزیر اعظم ملک سے باہر ہوں تو کسی سینئر وزیر کو حکومت کی ذمہ داریاں دی جاتی ہیں مگر یہاں وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں اسحاق ڈار اور مریم نواز ادا کررہے ہیں جو آئین سے متصادم ہے یہ صورتحا ل ارکان پارلیمنٹ کیلئے سوالیہ نشان ہے جس کا جواب انہیں پارلیمنٹ میں دینا چاہئے ۔

لیاقت بلوچ نے کہا کہ سینیٹ کی مدت 6سال، قومی اسمبلی کی مدت5سال اور آرمی چیف کی مدت 3سال ہے جو ملک میں استحکام کی بجائے ابہام کا باعث بن رہا ہے ۔ اداروں کے استحکام کیلئے ضروری ہے کہ سینیٹ، قومی وصوبائی اسمبلیوں اور چیف آف آرمی سٹاف کی آئینی مدت 4سال ہونی چاہئے ۔ سیاسی قیادت کو اس خلا کو پر کرنے پر بھی غور کرنا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ انتظامی یونٹس قائم ہونے چاہئیں لیکن علاقائی تعصب کی بنیاد پر نہیں۔

قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم ہونی چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ جب تک امریکہ افغانستان میں موجود ہے خطے میں امن نہیں ہوسکتا ۔انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد ہم اگر چہ امریکہ کے دہشت گردی کیخلاف اتحادی ہیں لیکن امریکہ کی وجہ سے ہمارا ملک دہشت گردی کا شکار ہے ۔امریکہ ڈرون حملے کرتا ہے اور ہمارے حکمران اس کے خلاف مضبوط آواز نہیں اُٹھاتے ۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب ہمارا دوست ملک ہے اور ہمیں اس پر فخر ہے لیکن ایران، افغانستان اور چین بھی ہمارے دوست ممالک میں شامل ہیں ۔ افغانستان کے مسئلے پر ہمارے حکمران جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں انسانوں کو اپنا دشمن نہ بنائیں جن کی ہم مہمان نوازی کرتے رہے ہیں ہمیں چاہئے کہ ہم خارجہ پالیسی پر دانشمندی کا ثبوت دیں اور خارجہ پالیسی کو واضح کیا جائے۔