سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی انسانی حقوق نے ملک میں خواتین کے خلاف تشدد کی تازہ لہر کا ذمہ دار اسلامی نظریاتی کونسل اور مولانا شیرانی کو قرار دیدیا

وزارت قانون سے اسلامی نظریاتی کونسل کی موجودہ پوزیشن کے حوالے سے رائے لی جانی چاہئے ، 1997میں اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے پارلیمنٹ میں پیش کی گئی آخری رپورٹ کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کا جواز آئینی اور قانونی طور پر ختم ہو چکا ہے، سینیٹر فر حت اﷲ بابر

منگل 28 جون 2016 22:29

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔29 جون ۔2016ء) سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے ملک میں خواتین کے خلاف تشدد کی تازہ لہر کا ذمہ دار اسلامی نظریاتی کونسل اور اسکے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے خاوند کو بیوی پرہلکا پھلکا تشدد کرنے کا لائسنس دیکر خواتین کے خلاف مردوں کے تشدد کو ہوا دی ہے ،خواتین کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات میں اسلامی نظریاتی کونسل کا بھی ہاتھ ہے۔

سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے مطالبہ کیا کہ وزارت قانون سے اسلامی نظریاتی کونسل کی موجودہ پوزیشن کے حوالے سے رائے لی جانی چاہئے۔ 1997میں اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے پارلیمنٹ میں پیش کی گئی آخری رپورٹ کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کا جواز آئینی اور قانونی طور پر ختم ہو چکا ہے ،منگل کو کمیٹی کا اجلاس کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹرنسرین جلیل کی زیر صدارت یہاں پارلیمنٹ ہاوٗس میں منعقد ہوا، اجلاس میں سینیٹرز فرحت اﷲ بابر ، ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی، محسن خان لغاری، ستارہ ایاز کے علاوہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں خواتین کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات میں اضافے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی حالیہ سفارشات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ۔فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ میڈیا پر چلنے والے ڈرامے اور فلم کا اختتام بھی غیرت کے نام پر قتل پر ہوتا ہے ۔میڈیا ایسے ڈرامے نہ چلائے ۔ چیئر پرسن کمیٹی نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل اور خواتین کے جلانے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی بعض چیزیں تکلیف دہ ہیں ۔ترقی کی بجائے ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں ۔خواتین کی بے حرمتی پر پارلیمنٹیرینز کی خاموشی بھی قابل تشویش ہے۔صرف خواتین کے معاملے میں ہی غیرت کو اجاگر نہ کیا جائے ۔کمیٹی اجلاس میں غیرت کے نام پر قتل پر مجرم کے ساتھ صلح اور معافی پر پابندی کے سابق سینیٹر صغری امام کے بل کو مشترکہ اجلاس میں پاس کرنے کی سفارش کی گئی۔

سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ عموما مجرم بچ جاتے ہیں قوانین مزید سخت بنائے جائیں ا ور حکومت مدعی ہو ۔سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ سینیٹ میں بل پاس ہو گیا تھا ۔پانامہ لیکس کی وجہ سے حکومت نے قومی اسمبلی میں دوسری جماعتوں سے مذاکرات کا کہ کر بل زیر التوا ء رکھا ہے ۔سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ خواتین کے حوالے سے اسلام کے اصل احکامات پر عمل ضروری ہے ۔

مذہبی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مل بیٹھ کر حل نکالا جائے۔سیکرٹری وزارت نے کہا کہ قتل کسی بھی طرح جائز نہیں ۔غیرت کے نام پر واقعات میں ایک ولی مجرم کو معاف کر دیتا ہے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت جاری ہے ریاست کے مدعی بننے پر لیگل ونگ کام کر رہا ہے۔ ڈی جی نے آگاہ کیا کہ سینیٹر صغری امام اور وزارت قانون کے بلوں پر کام ہو رہا ہے اور معاشرے کی بہتری کیلئے بہتر سے بہتر سفارشات بنائی جائینگی۔

۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ زبردستی غائب اور اغواء ہونے و الے معاملات کی روک تھام کیلئے بین الا قوامی کنونشن پر دستخط کئے جائیں۔ کمیٹی اجلاس میں اوکاڑ ہ فارمز کے معاملے پر میجر جنرل عابد نذیر نے آگاہ کیا کہ افواج پاکستان کی طرف سے کسی کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی۔فوج عوام میں سے اور عوام ہم میں سے ہیں ۔چیف آف سٹاف کی واضح ہدایت کے بعد سویلین کے خلاف کوئی بھی کاروائی نہیں کر سکتے ۔

سویلین ہمارے لئے نو گو ایریا ہیں۔ اوکاڑہ فارمز سے 3.5بلین کا دودھ پیدا ہوتا ہے۔1700ملازمین کے خلاف 11 افسران کیسے ڈنڈے اٹھا سکتے ہیں۔انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے کہا گیا کہ مزارعین کے ساتھ زبردستی معاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔ دو ماہ میں ایک گروپ کے خلاف دہشت گردی کے آٹھ مقدمات درج کرائے گئے جس میں سابق ملازمین بھی شامل ہیں۔خواتین گرفتار کی گئیں جس سے فوج کے خلاف غلط تاثر پیدا ہوا۔

سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ مزارعین کئی سالوں سے بٹائی ادا نہیں کر رہے رقم اربوں میں بنتی ہے کسی کرایہ دار،مزارعہ کوکسی بھی طرح مالکانہ حقوق نہیں دیئے جا سکتے۔مالکانہ حقوق کا مطالبہ کسی بھی طرح جائز نہیں۔ اگر مزارعین کے پاس کسی معاہدے کی کاپی یا ثبوت ہو تو کمیٹی میں فراہم کیا جائے۔ مزارعین کے نمائندوں لیاقت اور محمد شہزاد نے کہا کہ زمین پر چوتھی نسل سے کام کر رہے ہیں ۔

مالکانہ حقوق دیئے جائیں ریاستی اداروں کی طرف سے دہشت گردی کے مقدمات درج کئے گئے ہیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کیا جائے۔سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ مالکانہ حقوق سے ذیادہ 15اور27اپریل کو ہونے والے واقعات اہم ہیں کمیٹی کو گرفتار افراد ،مقدمات ا ور کس کس جیل میں بند ہیں ،کون کونسی دفعات لگائی گئی ہیں آگاہ کیا جائے۔سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو اپ ہولڈ کیا ہے۔

احتجاج کرنے والوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات درست نہیں۔جنوبی پنجاب میں اصل دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی بجائے غریب مزارعین پر دہشت گردی کے مقدمات ا ور گرفتاریوں سے نیشنل ایکشن پلان پر سے لوگوں کا ا عتماد اٹھ جائیگا۔سیاسی انتقام کا نشانہ نہ بنایا جائے اورانسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ کیا جائے ۔سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ آڈیٹر جنرل نے ملٹری لینڈ میں بد عنوانی کے نو معاملات کی نشاندہی کی ہے ۔

کاروائی تو درکنار جواب تک نہیں دیا گیا ۔ مزارعین اور پنجاب حکومت برادرانہ ماحول میں معاملات کو حل کریں۔ مزارعین بٹائی دیں چیئر پرسن سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ کمیٹی سفارش کرتی ہے کہ مقدمات واپس لئے جائیں اور معاملہ مل بیٹھ کر حل کیا جائے۔ڈی سی اوکاڑہ کی طرف سے ملٹری لینڈ اور سپریم کورٹ فیصلے پر بریفنگ پر سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے یہ شعر پڑھا۔

صبح کے تخت نشین شام کو مجرم ٹھرے ۔میں نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتا دیکھا ۔کمیٹی اجلاس میں چیئر پرسن کمیٹی نسرین جلیل کی سیکورٹی اور حملے میں ہلاک ہونے والے گارڈ اور مجرموں کی گرفتاری کے حوالے سے معاملہ زیر بحث آیا۔جس پر چیئر پرسن نسرین جلیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر سیکورٹی دی گئی،سندھ حکومت نے کہا کہ گاڑیاں اور لوگ نہیں پہلے سٹی وارڈن ساتھ چلتے تھے اب نہیں ۔دو گارڈ دیئے گئے ہیں ۔ایک ایک دن اور دوسر ا دوسرے دن نوکری کرتا ہے۔سکارڈ گاڑی نہ ہونے کی وجہ سے تحفظ نہیں۔کمیٹی اجلاس میں امجد صابری شہید کی روح کے ایصال ثواب کیلئے فاتح خوانی کی گئی۔

متعلقہ عنوان :