پبلک اکاونٹس ذیلی کمیٹی کا مختلف منصوبوں کے تعمیراتی کاموں میں تاخیر اور لاگت میں اضافے پر تشویش کا اظہار

5کروڑ کی لاگت کا منصوبہ 5 ارب میں مکمل ہو گا تو ملک کا کیا بنے گا ، کمیٹی کے ریمارکس کمیٹی نے تو نسہ موسیٰ خیل روڈ کی تعمیر کا ٹھیکہ کے حوالے سے تفصیلات طلب کر لیں

منگل 28 جون 2016 20:56

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔29 جون ۔2016ء )پبلک اکاونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے مختلف منصوبوں کے تعمیراتی کام میں تاخیر کی وجہ سے ان کی لاگت میں ہونے والے اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 5کروڑ کی لاگت کا منصوبہ 5 ارب میں مکمل ہو گا تو ملک کا کیا بنے گا جبکہ پاک پی ڈبلیو ڈی کی جانب سے پی اے سی ذیلی کمیٹی کو بتایا گیاکہ حکومتیں بدلنے سے منصوبوں کی ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں جس سے تاخیر کے ساتھ ساتھ منصوبوں کی تعمیراتی لاگت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے کمیٹی نے تو نسہ موسی خیل روڈ کی تعمیر کا ٹھیکہ کے حوالے سے تفصیلات طلب کر لیں ۔

اجلاس منگل کو پارلیمنٹ ہاوس میں کمیٹی کے کنوینئر میاں عبدالمنان کی زیرصدارت ہوا جس میں وزارت ہاوسنگ و تعمیرات اور پاک پی ڈبلیو ڈی سمیت متعلقہ سرکاری حکام نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں وزارت ہاوسنگ و تعمیرات کے 2002 اور 2003 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ جی8میں 129فلیٹوں کے تعمیراتی منصوبے کی لاگت بڑھنے سے قواعد کی خلاف ورزی ہوئی ہے جس پر وزارت تعمیرات و ہاوسنگ کی جانب سے بتایا گیا کہ یہ ٹھیکہ 1986 میں ہوا جس پر 1991 میں کام شروع کرنے کا اجازت نامہ جاری کیا گیا۔

کمیٹی کے کنوینئر میاں عبدالمنان نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منصوبے پر 5سال تک کام شروع کرنے میں تاخیر کیوں کی گئی۔ اس بات کا تعین ہونا چاہیے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ پاک پی ڈبلیو ڈی کو اس معاملے کی تحقیقات کرنی چاہیے۔ انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 5کروڑ کا منصوبہ تاخیر کی وجہ سے 5ارب میں مکمل ہو گا تو ملک کا کیا بنے گا۔ سرکاری حکام نے کہا کہ منصوبے تاخیر کا شکار ہونے سے لاگت بڑھ جاتی ہے، آڈٹ حکام نے کہا کہ جن منصوبوں کو فنانس کلیئر نہ کرے ان پر کام شروع نہیں ہو سکتا۔

میاں عبدالمنان نے کہا کہ وزارت خزانہ کی منظوری کے بغیر ملک میں کوئی کام بھی شروع نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے ہدایت کی کہ اس منصوبے کی لاگت میں 2کروڑ اضافے کی مکمل تحقیقات کرائی جائیں۔ پاک پی ڈبلیو ڈی کے حکام نے کہا کہ ایک منصوبے کی منظوری ایک حکومت دیتی ہے جب وہ رخصت ہوتی ہے تو ترجیحات بدل جاتی ہیں اور اس طرح منصوبے تاخیر کا شکار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر تعمیری لاگت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

میاں عبدالمنان نے پی اے سی کو بتایا کہ وزیراعلی بلوچستان کی طرف سے سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین پی اے سی کو درخواست آئی ہے کہ تونسہ موسی خیل روڈ کی تعمیر کے حوالے سے این پی آئی کنسٹرکشن اینڈ انجینئرنگ کمپنی کو انصاف دلایا جائے۔ این پی آئی کنسٹرکشن کمپنی کو پی اے سی کی طرف سے بتایا گیا کہ تونسہ موسی خیل روڈ کی تعمیر کا ٹھیکہ انہیں 2008 میں 456ملین روپے میں دیا گیا۔

35کلومیٹر شاہراہ کے اس منصوبے پر ہم نے 2011 تک کام کیا منصوبہ بندی کمیشن نے 2011 میں اس منصوبے کو پی ایس ڈی پی سے نکال دیا اور ان کے 150ملین روپے حکومت کی طرف واجب الادا تھے۔ بعدازاں 2012 میں اس منصوبے کا ٹھیکہ کسی اور کو دے دیا گیا۔ پی اے سی نے اس معاملے پر ایک خصوصی کمیٹی بنانے کا حکم دیا جس میں وزارت ہاوسنگ و تعمیرات پاک پی ڈبلیو ڈی کے نمائندے شامل ہوں گے اور پی اے سی خود اس کمیٹی کی نگرانی کرے گی اور اس معاملے کی مکمل تحقیقات کر کے مذکورہ کنسٹرکشن کمپنی کے ساتھ انصاف کی راہ ہموار کی جائے گی