سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس

فنانس ریکوری ترمیمی بل 2016 ، کریڈیٹ بیورو ایکٹ 2015 ، سیکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ایکٹ 1997 کے بل کے علاوہ الیکشن کمیشن کے ممبران کو دی جانیوالی تنخواہوں و دیگر مراعات ، ہارون اختر کی چیئرمین شپ میں تشکیل دی جانیوالے کمیٹی کی پراگرس کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا

منگل 28 جون 2016 18:42

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔29 جون ۔2016ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا ۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں فنانس ریکوری ترمیمی بل 2016 ، کریڈیٹ بیورو ایکٹ 2015 ، سیکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ایکٹ 1997 کے بل کے علاوہ الیکشن کمیشن کے ممبران کو دی جانے والی تنخواہوں و دیگر مراعات ، مسٹر ہارون اختر کی چیئرمین شپ میں تشکیل دی جانے والے کمیٹی کی پراگرس کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

قائمہ کمیٹی نے فنانس ریکوری ترمیمی بل 2016 جس کی منظوری پہلے ہی دی گئی تھی کا تفصیل سے دوبارہ جائزہ لیا گیا ۔اس بل کا جائزہ انصاری اینڈ کھوکھر کے جی لیگل کراچی کی رپورٹ کے حوالے سے لیا گیا اور قائمہ کمیٹی نے ترمیم کے بعد منظوری دے دی ۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی نے کریڈیٹ بیورو ایکٹ 2015 کا تفصیل سے جائزہ لیا اور ترمیم کے بعد منظوری دے دی ۔ سیکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ایکٹ 1997 کے بل کا تفصیل جائزہ لیتے ہوئے اس بل کو منظور کر لیا الیکشن کمیشن کے ممبران کی تنخواہوں اور مراعات کے حواے سے ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ 18 ویں ترمیم سے پہلے ہائی کورٹ کے سیٹنگ ججز الیکشن کمیشن کے ممبران ہوتے تھے اور 18 ویں ترمیم کے بعد ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ ججز الیکشن کمیشن کے ممبر بن سکتے ہیں 2011 میں قائد حزب اختلاف نے چار نام الیکشن کمیشن کے ممبران کے بجھوائے وہی نام وزیراعظم نے منظور کر کے صدر پاکستان کو منظوری کیلئے بھیج دیئے اور 9 نومبر 2011 کو صدر پاکستان نے انہی ناموں کی منظوری دے دی اس سمری میں تنخواہوں اور مراعات کو کوئی ذکر نہیں تھا الیکشن کمیشن نے 13 جون2011 کو تنخواہوں اور مراعات کیلئے ڈرافٹ تیار کر کے وزارت پارلیمانی امور کو بھیج دیا پارلیمانی امور نے کیبنٹ ڈویژن کو بھیجا اور کیبنٹ ڈویژن نے پارلیمنٹ ہاؤس کو منظوری کیلئے بھیجا جو آج تک منظور نہیں ہوا۔

جس پر سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ ممبران کی تقرری کیلئے نوٹیفکیشن ہونا ضروری تھا الیکشن کمیشن نے قانون کے مطابق کام کیوں نہیں کیا بغیر قانون سازی کے کام چلایا جارہا ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ ممبران سے تنخواہیں و دیگر مراعات کی ریکوری کی جائے اور ادئیگی اسٹبلشمنٹ کے ذریعے کرائی جائے ۔سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ اتنا بڑا ادارہ ہے تنخواہوں کے لئے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی اور تقرری کا طریقہ کار بھی مختلف ہے اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان نے کہا کہ تنخواہوں اور تقرریوں کا اختیار اے جی پی آر کو حاصل نہیں حکومت کو ہے الیکشن کمیشن کی درخواست کے مطابق پرو یژنل تنخواہ دی گئی ہے ۔

جس پر قائمہ کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا حقیقت پر مبنی ایک رپورٹ بنا کر پیش کر دی جائے گی ۔مسٹر ہاورن اختر کی چیئرمین شپ میں کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ابھی اس کا نوٹیفکیشن نہیں ہوا اور اس کا نوٹیفکیشن وزارت ٹیکسٹائل انڈسٹری نے کرنا ہے ایف بی آر نے نہیں ۔ ٹیکسٹائل کمپنیوں کے قرضے جو پہلے ہی سے این پی ایل میں تبدیل ہو چکے ہیں کے حوالے سے اسٹیٹ بنک کے انڈر سپیشل فنڈ قائم کرنے کے متعلق قائمہ کمیٹی کو تبایا گیا کہ ایسا کوئی فنڈ قائم نہیں کیا گیا ۔

قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلا س میں سینیٹر محسن خان لغاری ، کامل علی آغا ، سردار فتح محمد محمد حسنی اور محسن عزیز کے علاوہ سیکرٹری خزانہ وقار مسعود، اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ، ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بنک، ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔