سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے فنانس ریکوری ترمیمی بل 2016ء، کریڈٹ بیورو ایکٹ 2015ء اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ایکٹ 1997ء کے بلوں کی منظوری دیدی

منگل 28 جون 2016 16:23

اسلام آباد ۔ 28 جون (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔28 جون۔2016ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ، ریونیو، اقتصادی امور، شماریات و نجکاری نے فنانس ریکوری ترمیمی بل 2016ء، کریڈٹ بیورو ایکٹ 2015ء، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ایکٹ 1997ء کے بلوں کی منظوری دیدی۔ قائمہ کمیٹی نے الیکشن کمیشن کے ممبران کو دی جانے والی تنخواہوں و دیگر مراعات کے معاملہ کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا۔

قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا کی زیر صدارت منگل کو پارلیمنٹ لاجز کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں قائمہ کمیٹی نے فنانس ریکوری ترمیمی بل 2016ء، جس کی منظوری پہلے ہی دی گئی تھی کا تفصیل سے دوبارہ جائزہ لیا گیا ۔

(جاری ہے)

اس بل کا جائزہ انصاری اینڈ کھوکھر کے جی لیگل کراچی کی رپورٹ کے حوالہ سے لیا گیا اور قائمہ کمیٹی نے ترمیم کے بعد اس کی منظوری دی ۔

قائمہ کمیٹی نے کریڈٹ بیورو ایکٹ 2015ء کا تفصیل سے جائزہ لیا اور ترمیم کے بعد منظوری دے دی ۔ اجلاس میں سیکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ایکٹ 1997ء کے بل کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہوئے اس بل کو بھی منظور کر لیا گیا ۔ الیکشن کمیشن کے ممبران کی تنخواہوں اور مراعات کے حوایلے سے ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ 18 ویں ترمیم سے پہلے ہائی کورٹ کے حاضر سروس ججز الیکشن کمیشن کے ممبران ہوتے تھے اور 18 ویں ترمیم کے بعد ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ ججز الیکشن کمیشن کے ممبر بن سکتے ہیں۔

2011 میں قائد حزب اختلاف نے چار نام الیکشن کمشن کے ممبران کے لئے بجھوائے، وہی نام وزیراعظم نے منظور کر کے صدر پاکستان کو منظوری کیلئے بھیجے۔ 9 نومبر 2011ء کو صدر پاکستان نے انہی ناموں کی منظوری دی، اس سمری میں تنخواہوں اور مراعات کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ الیکشن کمیشن نے 13 جون2011ء کو تنخواہوں اور مراعات کیلئے ڈرافٹ تیار کر کے وزارت پارلیمانی امور کو بھیجا، وزارت پارلیمانی امور نے اسے کیبنٹ ڈویژن کو بھیجا اور کیبنٹ ڈویژن نے پارلیمنٹ ہاؤس کو منظوری کیلئے بھیجا جو آج تک منظور نہیں ہوا۔

سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ ممبران کی تقرری کیلئے نوٹیفکیشن ہونا ضروری تھا ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ممبران سے تنخواہیں و دیگر مراعات کی ریکوری کی جائے۔ قائمہ کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا حقیقت پر مبنی ایک رپورٹ بنا کر پیش کر دی جائے گی ۔ ہاورن اختر کی چیئرمین شپ میں کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ابھی اس کا نوٹیفکیشن نہیں ہوا اور یہ نوٹیفکیشن وزارت ٹیکسٹائل انڈسٹری نے کرنا ہے ایف بی آر نے نہیں ۔

ٹیکسٹائل کمپنیوں کے قرضے جو پہلے ہی سے این پی ایل میں تبدیل ہو چکے ہیں کے حوالے سے اسٹیٹ بنک کے تحت سپیشل فنڈ کے متعلق قائمہ کمیٹی کو تبایا گیا کہ ایسا کوئی فنڈ قائم نہیں کیا گیا ۔قائمہ کمیٹی کے اجلا س میں سینیٹر محسن خان لغاری، کامل علی آغا، سردار فتح محمد محمد حسنی اور محسن عزیز کے علاوہ سیکرٹری خزانہ وقار مسعود، اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان، ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :