کراچی کے دفتر میں ہندو رپورٹر الگ گلاس میں پانی پینے، افسران کا مبینہ دباو

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 28 جون 2016 14:49

کراچی(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔28جون 2016ء) :کراچی میں ایک آفس میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے رپورٹر کر الگ گلاس میں پانی پینے پر ساتھی ملازمین نے مجبور کر دیا ، تفصیلات کے مطابق ساتھی ملازمین کو معلوم ہوا کہ ہندو رپورٹر کا تعلق ایک نچلی ذات سے ہے جس پر انہوں نے رپورٹر کو الگ گلاس میں پانی پینے کے لیے مجبور کیا۔صاحب خان پاکستان کی ایک نیوز ایجنسی میں بطور سینئیر رپورٹر کام کرتے ہیں، جہاں انہیں ایک ہی گلاس میں پانی پینے اور مسلمان سٹاف کے ساتھ کسی بھی برتن کو شئیر کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔

صاحب خان ضلع دادو سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ماسٹرز میں ڈگری حاصل کی ۔نیوز ایجنسی میں انہیں ابتدائی طور پر بطور رپورٹر تعینات کیا گیا تھا جس کے بعد ان کا تبادلہ پہلے حیدر آباد اور پھررواں سال اپریل میں کراچی کر دیا گیا ۔

(جاری ہے)

ذات پات کی اس تقسیم کا آغاز صاحب خان کے بیٹے راج کمار کے آفس آنے کے بعد ہوا جس کے بعد تمام سٹاف کو معلوم ہوا کہ صاحب خان دراصل ہندو ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میرے نام میں ’خان‘ ہونے کے سبب سب یہی سمجھتے تھے کہ میں مسلمان ہوں۔ایجنسی کے بیوروچیف نے میرے ساتھ کام کرنے والے دیگر افراد کو تحفظات کے پیش نظر مجھ سے اپنا گلاس اور برتن الگ رکھنے کو کہا ۔ رمضان کے آغاز ہی سے صاحب خان کے لیے مشکلا ت میں اضافہ ہو گیا ہے ، صاحب خان کو افطار کے اوقات میں دیگر ملازمین کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر کھانا کھانے سے بھی منع کر دیا گیا ہے ، مزید یہ کہ سینئر افسرا ن نے صاحب خان کو ہدایت کی کہ اگر وہ آفس میں کھانا کھانا چاہتے ہیں تو اپنا الگ گلاس اور پلیٹ لے آئیں۔

دوسری جانب نیوز ایجنسی کے بیورو چیف کراچی نے صاحب خان کو ایسی کوئی بھی بات کہنے سے متعلق تردید کی ہے۔انہوں نے کہا کہ صاحب خان کو زکام تھا جس پر ہم نے انہیں الگ گلاس اور پلیٹ لانے کی تجویز دی۔بیورو چیف کا کہنا تھا کہ حید رآباد سے کراچی تبادلے کے وقت صاحب خان کو میں نے مکمل سپورٹ کیا، انہوں نے امتیازی سلوک سے متعلق تمام خبروں کو محض ایک پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی کبھی بھی آفس آ کر دیکھ سکتا ہے کہ صاحب خان کس طرح ہمارے ساتھ ہی افطار کرتے ہیں۔

نیو ز ایجنسی کے مینجنگ ڈائریکٹر نے کا کہنا ہے کہ اس سلسلے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پلر) ، جو کہ مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے، نے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کو اس امتیازی سلوک سے متعلق ایک خط بھی لکھا۔پلر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرامت علی نے خط میں لکھا کہ ایک سرکاری نیوز ایجنسی کے بیورو آفس میں محض ہندو ہونے پر ملازم کو الگ گلاس اور برتن استعمال کرنے پر مجبور کرنا نہایت حیران کن ہے۔

متعلقہ عنوان :