القاعدہ میرے بدلے الظواہری کی رشتہ داروں کی رہائی اوربھاری رقم وصول کرنا چاہتی تھی، علی حیدر گیلانی

منگل 28 جون 2016 11:34

اسلام آباد ۔ 28 جون (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔28 جون ۔2016ء) سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی نے کہا ہے کہ القاعدہ ان کے بدلے ایمن الظواہری کے خاندان کی چند خواتین کی رہائی اوربھاری رقم وصول کرنا چاہتی تھی، اڑھائی ماہ تک فیصل آباد میں ایک مکان میں زنجیر سے باندھ کر رکھا گیا بعض اوقات وہ رات کو سوتے ہوئے ہاتھوں میں بھی زنجیر پہنا دیتے تھے۔

22 جولائی 2013 کو ایک گاڑی وزیرستان لے جایاگیا۔ ملتان سے فیصل آباد تک سفر میں کوئی پولیس چوکی نہیں آئی اور نہ کوئی کہیں چیکنگ ہوئی، بنوں سے وزیرستان جاتے ہوئے تقریباً دس چوکیاں آئیں،ایک دو پر شناخت کے لیے روکا گیا لیکن صرف ڈرائیور کا شناختی کارڈ دیکھ کر چھوڑ دیتے تھے،شمالی وزیرستان میں ڈانڈے درپہ خیل میں مجھے سات ماہ تک رکھا گیا،کبھی جسمانی تشدد نہیں کیا لیکن ذہنی دباوٴ میں رکھتے تھے دتہ خیل میں ایک ڈرون حملے کے بعد مجھے طالبان کے حوالے کر دیا گیا،شوال میں سجنا گروپ کے پاس میں نے 14 ماہ گزارے، پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کی ہلاکت کے بعد میں نے پاکستانی فضائیہ کی دتہ خیل پر بمباری دیکھی جہاز نشانہ ٹھیک لگاتے تھے لیکن شدت پسند پہلے ہی گھروں سے نکل جاتے تھے، پیسہ اغوا کاروں کے لیے کبھی مسئلہ نہیں رہا، نو مئی کی شام کو القاعدہ کے آدمی نے کہا کہ آج چھاپہ پڑے گا، عشاء کے بعد وہ مجھے مکان سے باہر لے گئے، امریکی ہیلی کاپٹر ہم پر روشنی ڈال رہے تھے، اغوا کار نے بھاگنے کا کہا تو میں اغوا کاروں کے ساتھ بھاگنے کی بجائے دوسری سمت میں دوڑا، اغوا کار کے مرنے کے بعد امریکیوں نے مجھے پکڑ لیا اور منٹوں میں تصدیق آ گئی تو مجھ سے کہا گیلانی صاحب آپ گھر جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

تین برس تک اغواکاروں کے قبضے میں رہنے کے بعد افغانستان سے بازیاب ہونے والے علی حیدر گیلانی نے برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی کو انٹرویو میں کہا کہ وہ تین سال تک القاعدہ کے قبضے میں رہے اور کراچی سے تعلق رکھنے والا القاعدہ کا ایک اہم رکن ضیا ان کے ساتھ تین سال تک رہا۔ علی گیلانی کا کہنا تھا کہ اغوا سے قبل اگرچہ انھیں کوئی دھمکی نہیں ملی تھی تاہم اغوا سیایک ہفتہ قبل ایک دوست نے بتایا تھا کہ ایک گاڑی آپ کا پیچھا کر رہی تھی اور بعد میں وہ کہیں کھڑے گاڑی کی نمبر پلیٹ تبدیل کر رہے تھے۔

میں اپنی سکیورٹی سے مطمئن تھا۔ الیکشن کمیشن کے ضابط اخلاق کے مطابق ہتھیاروں کی نمائش پر پابندی تھی اس لیے میرے محافظوں نے اپنے ہتھیار گاڑی میں چھوڑ دیے تھے۔ اپنے اغوا کی تفصیلات بتاتے ہوئے علی گیلانی نے کہا کہ ایک انتخابی جلسے کے بعد بہت سارے لوگوں اور اپنے دو محافظوں کے ساتھ میں جلسہ گاہ سے باہر نکالا تو کسی نے میری گردن سے پکڑ کر مجھے زور سے دھکا دیا اور میں زمین پر گر گیا۔

پھر میں نے گولیوں کی آواز سنی اور اپنے دونوں محافظوں کو گرتے دیکھا۔ میں زمین پر لیٹا تھا کہ کسی نے بندوق میرے سر پر دے ماری اور میرا سر پھٹ گیا، مجھے اس وقت لگا کہ شاید وہ مجھے مارنے آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اغواکاروں کی تعداد چھ تھی، انھوں نے مجھے گاڑی میں ڈالا اور اس خوف سے کہ کوئی جاسوسی کے آلات میرے کپڑوں میں نہ ہوں میرے کپڑے اور جوتے اتار کر باہر پھینک دیے۔

ان کا مجھ سے پہلا سوال یہ تھا کہ آپ سنی ہو یا شیعہ۔ مجھے لگا کہ یہ کوئی فرقہ وارانہ واردات ہے۔ انھوں نے میری آنکھوں پر پٹی نہیں باندھی تھی لہٰذا میں انھیں دیکھ سکتا تھا لیکن اب ان کے چہرے بھول گیا ہوں، وہ سب پنجابی زبان میں باتیں کر رہے تھے۔ پھر انہوں نے مجھے خاموش رہنے کے لیے کہا اور ایسا نہ کرنے پر گولی مارنے کی دھمکی دی۔ تاہم انھیں جسمانی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیاعلی حیدر گیلانی کا کہنا تھا کہ اغوا کاروں نے گاڑی ملتان سے خانیوال روڈ پر ڈال دی۔

دو اغوا کار خانیوال میں گاڑی سے اتر گئے۔ پھر وہ مجھے فیصل آباد لے آئے۔ جس گاڑی میں ہم سفر کر رہے تھے اس پر انتخابی پوسٹرز اور جھنڈے لگے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنا تعارف القاعدہ کے طور پر کروایا اور کہا کہ آپ یوسف رضا گیلانی کے بیٹے ہیں اس لیے آپ کو اغوا کیا ہے۔ آپ کے والد کے دور میں اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد کے علاوہ سوات اور وزیرستان میں کارروائیاں ہوئیں اس لئے آپ ہمارے دشمن ہیں۔

سابق وزیرِ اعظم کے صاحبزادے نے بتایا کہ اغوا کے بعد انھیں تقریباً اڑھائی ماہ تک فیصل آباد میں ایک مکان میں رکھا گیا۔ وہاں اخبار آتے تھے اس لیے اندازہ ہوا کہ یہ فیصل آباد ہے۔ انھوں نے مجھے زنجیر سے باندھ کر رکھا تھا اور بعض اوقات وہ رات کو سوتے ہوئے ہاتھوں میں بھی زنجیر پہنا دیتے تھے۔ 22 جولائی 2013 کو وہ مجھے ایک گاڑی میں براستہ موٹر وے بنوں سے وزیرستان لے گئیانھوں نے مجھے بتایا کہ وہ مجھے دو ماہ کے لیے وزیرستان لے کر جا رہے ہیں جہاں سے وہ مجھے رہا کر دیں گے کیونکہ ان کی میرے خاندان سے ڈیل ہوگئی ہے۔

شاید وہ یقینی بنانا چاہتے تھے کہ سفر کے دوران میں کہیں مزاحمت نہ کروں۔ ملتان سے فیصل آباد تک سفر میں کوئی پولیس چوکی نہیں آئی اور نہ کوئی کہیں چیکنگ ہوئی۔ انھوں نے مجھے اور دو اور لوگوں کو برقعے پہنا دیے اور خاموش رہنے کے لیے کہا۔ بنوں سے وزیرستان جاتے ہوئے تقریباً دس چوکیاں آئیں۔ایک دو پر شناخت کے لیے روکا گیا لیکن صرف ڈرائیور کا شناختی کارڈ دیکھ کر چھوڑ دیتے تھے۔

مسافروں کی چیکنگ نہیں کر رہے تھے۔ شمالی وزیرستان میں ڈانڈے درپہ خیل میں مجھے سات ماہ تک رکھا گیا۔ وہاں بھی سارے پنجابی بولنے والے اور ایک جرمن مغوی تھا جسے ملتان سے اٹھایا گیا تھا۔ وہ ایک غیرسرکاری تنظیم کے لیے کام کرنے والا جرمن شہری برنڈ موہلن بیک تھا جسے جنوری 2012 میں اغوا اور اکتوبر 2014 میں رہا کیا گیا۔ عام تاثر ہے کہ انھیں تاوان کی ادائیگی کے بعد رہائی ملی لیکن جرمن حکومت اس سلسلے میں کچھ نہیں بتایا کہ وہ کیسے اور کہاں رہا ہوئے۔

صرف اتنا کہا تھا کہ وہ ایک غیرملکی دوست کی مدد سے بازیاب ہوئے تھے۔ علی حیدر گیلانی کا کہنا تھا کہ مجھ پر انھوں نے کبھی جسمانی تشدد نہیں کیا لیکن ذہنی دباوٴ میں رکھتے تھے۔ زنجیر کی وجہ سے بیت الخلا جانے میں کافی دقت رہی۔ انھوں نے بتایا کہ دتہ خیل میں ایک ڈرون حملے کے بعد مجھے طالبان کے حوالے کر دیا گیا ، ڈرون حملوں میں القاعدہ برصغیر کے رہنما اور لاہور سے اغوا کیے گئے امریکی شہری ڈاکٹر وارن وائنسٹائن کی ہلاکت ہوئی تھی۔

علی حیدر گیلانی نے کہا کہ طالبان مجھے شوال لے گئے۔ یہ طالبان کا سجنا گروپ تھا جن کے پاس میں نے 14 ماہ گزارے۔ تاریخ، دن اور ماہ مجھے اس لیے آج بھی یاد ہیں کہ میں تواتر سے ڈائری لکھتا تھا جو وہ باقاعدگی سے جلا دیتے تھے۔ انھوں نے مجھے پڑھنے کے لیے کتابیں بھی دی تھیں۔ علی حیدر گیلانی نے کہا کہ میرا تین چیزوں پر ایمان تھا ایک اس بات پر ایمان کہ اللہ مدد کرے گا، دوسری امید کہ ایک دن رہائی نصیب ہوگی اور تیسرا صبر۔

یہ تینوں مجھے اچھی ذہنی حالت میں رکھنے کے لیے اہم تھیں۔ میں نے اپنے کمرے کی دیوار پر لکھا ہوا تھا ”وکٹری کمز ود پیشینس“ یعنی فتح صبر سے ملتی ہے۔ میں روزانہ اٹھ کر یہ پڑھتا تھا۔ قید کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے علی حیدر کا کہنا تھا کہ قید کے دوران میں نے 14 ماہ تک آسمان نہیں دیکھا۔ کمرے میں ایک بلب 24 گھنٹے جلتا رہتا تھا۔ قدرتی روشنی ناپید تھی۔

میں نے ایک دن تنگ آ کر اغوا کاروں سے کہا کہ کم از کم یہ بلب رات کے وقت تو بند کر دیا کرو تاکہ مجھے دن اور رات کا کوئی اندازہ تو ہو۔ علی حیدر کا کہنا تھا کہ انھیں باہر کی دنیا کے ساتھ رابطہ اچھا لگتا تھا اور اس سلسلے میں انھیں جو بھی موقع ملا انھوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کو کرکٹ کا شوق تھا۔ ورلڈ کپ کے دوران جب پاکستان جنوبی افریقہ کے خلاف میچ کھیل رہا تھا تو میں نے اپنے اغوا کاروں سے درخواست کی کہ مجھے میچ دیکھنے دیں۔

انھوں نے ٹی وی تو نہیں لیکن ریڈیو کا بندوبست کر دیا۔ کمرے کے اندر سگنل صاف نہیں آ رہے تھے لہٰذا میں ریڈیو اور سلیپنگ بیگ لے کر باہر آگیا۔ پھر وہ میچ میں نے برف باری کے دوران سنا اور پاکستان جیت گیا تو خوشی کی انتہا بھی نہ تھی۔سابق وزیر اعظم کے بیٹے نے کہا کہ سب سے برا وقت مجھ پر جب وہ تھا جب میں نے اپنے ایک کزن کی حج میں بھگڈر کے دوران ہلاکت کی خبر سنی۔

علی حیدر گیلانی کا کہنا تھا کہ میں نے سو گز کے فاصلے سے جیٹ طیارے کا حملہ دیکھا ہے۔ پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کی ہلاکت کے بعد میں نے پاکستانی فضائیہ کی دتہ خیل پر بمباری دیکھی تھی۔ خوفناک آوازیں ہوتی تھیں۔ جہاز نشانہ ٹھیک لگاتے تھے لیکن ان گھروں میں اکثر کوئی نہیں ہوتا تھا۔ شدت پسند پہلے ہی نکل جاتے تھے۔ جب بمباری شروع ہوتی تھی تو وہ ہمیں لے کر باہر کھلے علاقے میں چلے جاتے تھے۔

اس سال فروری میں جب پاکستان فوج نے دتہ خیل اور شوال میں کارروائی شروع کی تو مجھے افغانستان منتقل کر دیا گیا۔ وہاں کے علاقوں کے نام مجھے نہیں معلوم لیکن شاید پکتیکا کا علاقہ تھا۔ ہم نے وہاں بھی دو تین مقامات تبدیل کیے۔ دورانِ قید اہل خانہ سے رابطوں کے بارے میں بتاتے ہوئے علی حیدر گیلانی نے کہا کہ انھوں نے دو سال میں صرف دو مرتبہ افغان موبائل سم سے میری بات گھر کروائی تھی۔

ایک مرتبہ والدہ سے بات کی تھی اور دوسری مرتبہ والد سے۔ انھوں نے میری کئی ویڈیوز بھی بنائیں لیکن جاری دو ہی کیں جن میں میں حکومت اور اپنے خاندان سے ان کی بات سننے کو کہتا تھا۔ علی حیدر کے مطابق ان کے اغواکاروں کے مطالبات غیرحقیقی تھے جیسے کہ امریکی فوج کا افغانستان سے مکمل انخلا، قیدیوں کی رہائی اور رقم کا تقاضہ لیکن پیسہ ان کے لیے کبھی مسئلہ نہیں رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ انھیں ان کے اغوا کار اکثر بتاتے تھے کہ اگر ان کی رہائی کے لیے کوئی فوجی کارروائی ہوئی تو سب سے پہلے وہ خود انھیں گولی مار دیں گے۔ بازیابی کے آپریشن کے حوالے سے علی حیدر نے کہا کہ جب نو مئی کا دن آیا اس روز اتفاق سے میں بہت افسردہ تھا۔ شام کو القاعدہ کا آدمی آیا اور کہا کہ آج چھاپہ پڑے گا۔ نماز عشاء کے بعد وہ مجھے مکان سے باہر لے گئے۔

اتنا اندازہ تھا کہ وہ مجھے پاکستان کی جانب لے جا رہے تھے۔ مجھے سرحدی پہاڑ دکھائی دے رہے تھے۔ میرے پاوٴں کے چپل اتر گئے تھے۔ ایسے میں دو امریکی شنوک ہیلی کاپٹر اور شاید دو بغیر آواز والے کوبرا تھے جو ہم پر روشنی ڈال رہے تھے۔ میرے اغوا کار نے پہلے کہا لیٹ جاوٴ میں لیٹ گیا پھر کہا بھاگو۔علی گیلانی کے مطابق وہ خوش ہیں ان نازک لمحات میں انھوں نے جو فیصلہ کیا اس کی وجہ سے وہ زندہ بچ گئے۔

میں اغوا کاروں کے ساتھ بھاگنے کی بجائے دوسری سمت میں دوڑا۔ تین چار فائر ہوئے۔ مجھے یقین تھا کہ میں بھی مارا جاوٴں گا۔ بس یہ چند سیکنڈز کی دوری نے مجھے بچا لیا۔ القاعدہ کے اغوا کار کے مرنے کے بعد امریکیوں نے مجھ سے پشتو میں کچھ کہا۔ میں نے چیخ کر جواب دیا انگلش۔ تو انھوں نے پھر مجھے قمیض اتارنے اور ہاتھ اونچے کرنے کی ہدایات دیں۔ امریکی فوجی آیا اور اس نے میرے ہاتھ پیچھے باندھ دیے۔

میں نے اسے اپنا تعارف کروایا کہ میں علی حیدر گیلانی ہوں اور میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم کا بیٹا ہوں۔ تو وہ حیران ہوا۔ اس نے میری آنکھوں میں روشنی ڈال کر دیکھا اور کہا کہ اس کا رنگ تو نہیں ملتا۔ پھر سر دیکھا اور کہا کہ ہیئر لائن بھی نہیں ملتی۔ شاید وہ کسی اور کے ساتھ مجھے ملا رہے تھے۔ پھر اس نے اپنے ہیڈکوارٹر سے رابطہ کیا اور منٹوں میں تصدیق آ گئی تو اس نے مجھ سے کہا۔ گیلانی صاحب آپ گھر جا رہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :