پنجاب اسمبلی نے فنانس بل 2016ء ،مقامی حکومتوں کے ترمیمی مسودہ قانون کوکثرت رائے سے پاس کرلیا ،اپوزیشن کی ترامیم کثرت رائے سے مسترد

مقامی حکومتوں کے قانون کی منظوری کے دوران حکومتی اور اپوزیشن بنچوں کی طرف سے ایک دوسرے کیخلاف نعرے بازی بھی کی گئی ہمارا ٹیکس سٹرکچر جنرل سیلز ٹیکس آن سروسز ،پراپرٹی اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز پر ہے لیکن اس کا عام آدمی پر کوئی بوجھ نہیں ‘ وزیر خزانہ

پیر 27 جون 2016 22:49

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔27 جون ۔2016ء) پنجاب اسمبلی کے ایوان نے فنانس بل 2016ء کی منظوری دیدی ،اپوزیشن کی ترامیم کثرت رائے سے مسترد کر کے مقامی حکومتوں کا ترمیمی مسودہ قانون بھی کثرت رائے سے پاس کر لیا گیا جسکے مطابق اگر کوئی میٹرو پولٹین کارپوریشن ،میونسپل کارپوریشن اور میونسپل کمیٹی نے اپنے ایریا میں پراپرٹی ٹیکس کا تعین نہ کیا ہو تو قانون شہری غیر منقولہ جائیداد ٹیکس پنجاب 1958کی تصریحات کے مطابق پراپرٹی ٹیکس عائد کیا جائیگا ، ترمیمی مسودہ قانون میں شہری خصوصیات کی حامل دیہی یونین کونسل کو پراپرٹی ٹیکس کی شرح متعین کرنے کا مجاز بنانے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے ،منظور شدہ اخراجات برائے سال 2016-17ء کا گوشوارہ ایوان میں پیش کردیا گیا جبکہ آرڈیننس ( ترمیم ) سول کورٹس ، مسودہ قانون بلڈ ٹرانسفیوژن سیفٹی پنجاب اور مسودہ قانون ( دوسری ترمیم ) ریو نیو اتھارٹی پنجاب ایوان میں پیش کر دئیے گئے جنہیں متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کر کے دو ماہ میں رپورٹ طلب کر لی گئی ، مقامی حکومتوں کے ترمیمی مسودہ قانون کی منظوری کے دوران حکومتی اور اپوزیشن بنچوں کی طرف سے ایک دوسرے کیخلاف نعرے بازی بھی کی گئی ۔

(جاری ہے)

پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز اپنے مقررہ وقت 11بجے کی بجائے ایک گھنٹہ 18منٹ کی تاخیرسے اسپیکر رانا محمد اقبال کی صدارت میں شروع ہوا ۔ صوبائی وزیز خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے مسودہ قانون مالیات پنجاب 2016 زیر غور لانے کیلئے ایوان میں پیش کیا جس پر قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے اسکی مخالفت کرتے ہوئے بات کرنا چاہیے تاہم اسپیکر نے کہا کہ اسکی مخالفت نہیں ہو سکتی اور ایسی کوئی روایت نہیں کہ فنانس بل کے موقع پر بحث کی جائے ۔

میاں محمو دالرشید نے کہا کہ اسمبلی رولز 98کے مطابق فنانس بل کے جنرل پرنسپلزپر بات کی جا سکتی ہے ۔ اسپیکر نے وزیر قانون رانا اﷲ سے رائے طلب کی جس پر انہوں نے کہا کہ ماضی میں اس طرح کی کوئی روایت نہیں ہے لیکن کسی بھی بل کے پرنسپلزپر بات ہو سکتی ہے ۔میاں محمود الرشید نے کہا کہ میں نے اس حوالے سے اسمبلی کی ماضی کا ریکارڈ نکلوایا ہے ۔1973ء اور 80ء کی دہائی میں صوبائی اسمبلی میں فنانس بل پر بات کی گئی ہے جبکہ گزشتہ سال بھی ہم نے اس پر بات کی اور یہ رولز کیخلاف نہیں ۔

جس پر اسپیکر رانا محمد اقبال نے کہا کہ مجھے آپ اس کے بارے میں بھجوائیں گے اور انہوں نے اپوزیشن کو بات کرنے کی اجازت دیدی۔میاں ں محمود الرشید نے کہا کہ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹیکس فری بجٹ ہے لیکن حکومت نے موٹر سائیکل رکشہ پر بھی ٹیکس لگا دیا ہے ۔ حکومت کا سارا فوکس ان ڈائریکٹ ٹیکسز پر ہے جس کا براہ راست بوجھ غریب کو برداشت کرنا پڑے گا ۔

حکومت نے گلی محلوں میں شادی کیلئے شامیانے اور پھولوں سے سجاوٹ کرنے اور کیٹرنگ پر بھی ٹیکس لگا دیا ہے جو صریحاً زیادتی ہے ۔ شادی ہالوں والے اپنی جیب سے ٹیکس نہیں دیں گے بلکہ وہ عوام سے اس کی وصولی کریں گے ۔ فنانس بل ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی بد ترین مثال ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے 1300سے 1500سی سی گاڑی پر بھی 70ہزار روپے ٹیکس لگا دیا ہے جبکہ 2500سی سی سے اوپر گاڑی پر ڈھائی لاکھ روپے ٹیکس لگایا گیا ہے ۔

عام آدمی کے استعمال کی گاڑی پر ٹیکس نہیں ہونا چاہیے بیشک تین سے چار کروڑ والی گاڑی پر پچاس لاکھ ٹیکس لگا دیا جائے کیونکہ جو تین سے چار کروڑ کی گاڑی خرید سکتا ہے وہ پچاس لاکھ روپے ٹیکس بھی دے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ امیر وں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور بزنس مینوں کا بجٹ ہے جس میں عام آدمی کو کرش کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت عام آدمی کی بات کرتی ہے اور موٹر سائیکل رکشہ پر بھی ٹیکس عائد کر دیاگیا ہے ۔

حکومت کے قول و فعل میں تضاد ہے ۔ بجٹ میں خالی پلاٹ پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے حالانکہ جو پراپرٹی کا کاروبا ر کرتے ہیں وہ دو سال تک پلاٹ اپنے پاس نہیں رکھتے ۔ بلکہ غریب آدمی جو سالہا سال رقم اکٹھی کر کے بعد پلاٹ خریدتا ہے اور پھر اس پر دو کمرے ڈالنے کیلئے رقم جمع کرنے کیلئے کمر بستہ ہو جاتا ہے یا سرکاری ملازم جو اپنی ریٹائرمنٹ کا انتظار کرتا ہے وہ اس کی زد میں آئے گا۔

اسکے علاوہ ہیر ٹرانسپلانٹ ،کاسمیٹکس ،پلاسٹک سرجنز کی سروسز پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے ۔ یہاں کچھ لوگوں نے توباہر سے سب کچھ کرا لیا ہے اور اب ٹیکسز لگا دئیے گئے ہیں۔ کولڈ سٹوریج اور پیکنگ سروسز پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے جس کا لا محالہ اثر غریب عوام پر پڑے گا۔ شنیلا روتھ نے بجٹ کو موت کے کنویں کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ بجٹ وزیر خزانہ نے نہیں بنایا صرف پیش کیا ہے ۔

عوام وفاق اور صوبے کو 43فیصد ٹیکسوں کی ادائیگی کریں گے جس پر حکومت کو شرم آنی چاہیے ۔ حکومت عوام کا استحصال کر رہی ہے اس سے ٹیکس چوری بڑھے گی ۔ پنجاب ریو نیو اتھارٹی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور اس حوالے سے عدالت عالیہ کا فیصلہ موجود ہے ۔ حکومت نے محلات والوں اور بڑی مچھلیوں کو چھوڑ کر غریبو ں کو جکڑ لیا ہے ۔ حکومت ٹیکس جمع کرنے والے تین محکموں کو ایک بنا کر ون ونڈو آپریشن شروع کرے اس سے حکومت پر بھی بوجھ کم ہوگا۔

میاں اسلم اقبال نے کہا کہ حکومت نے کلی اختیار کوآپریٹو اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو دیدیا ہے اور ان کا آج تک آڈٹ نہیں ہوا ۔ ایسی بھی ہاؤسنگ سوسائٹیاں جہاں جاتے ہوئے حکومت کے پر جلتے ہیں ۔ حکومت پہلے لگائے گئے ٹیکسز اکٹھی نہیں کر سکی اور نئے ٹیکس لگانے جارہی ہے۔ حکومت کو چاہیے تھاکہ اصلاحات لاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ کوآپریٹو اور دیگر ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں خالی پلاٹ پر ٹیکس لیتے ہوئے حکومت کے پر جلیں گے۔

فنانس بل میں صوبے کے غریب عوام کا خون چوسنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔ خالی پلاٹس پر ٹیکس ظالمانہ ہے اسے واپس لیا جائے ۔ ڈاکٹر نوشین حامد نے کہا کہ حکومت نے رواں مالی سال میں لگژری گھروں پر ٹیکس ریکوری کا ہدف500ملین مقرر کیا لیکن صرف 10ملین اکٹھے ہو سکے اس سے حکومت کی گڈ گورننس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ سیاسی اور بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ کی بجائے اصلاحات کی طرف آیا جائے ۔

قاضی احمد سعید نے کہا کہ حکومت سانس لینے پر بھی ٹیکس لگا دینا چاہتی ہے۔ وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے اپوزیشن کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یا تو فنانس بل صحیح طریقے سے پڑھا نہیں گیا یا اپوزیشن کو اس کی سمجھ نہیں آئی ۔ہم ٹیکس کے نظام میں اصلاحات لا رہے ہیں اور ٹیکسز کی شرح بڑھانے کی بجائے ان لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لارہے ہیں جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہم ٹیکس کے نظام کو آٹو میٹ کر کے اسکی لیکجز روک رہے ہیں ۔ بات کی جارہی ہے کہ غریبوں پر ٹیکس لگایا جارہا ہے بتایا جائے کیا امپورٹڈ گاڑیاں غریب استعمال کرتا ہے ۔ جن کے پاس پیسے ہیں اور وہ خالی پلاٹس پر سرمایہ کاری کر کے مارکیٹ کو اوپر نیچے کرتے ہیں یہ ٹیکس ان پر لگاہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ پلاٹس کی بجائے فیکٹریوں،صنعتوں اور ان شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے جس سے روزگار کے مواقع ملیں اور پوری دنیا میں یہ عام فہم ٹیکس ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جو سالہا سال پیسے جوڑ کر پلاٹ خریدتا ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میں کہیں نہ کہیں سے رقم اکٹھی کرکے اپنا گھر بنا لوں اور ایسے لوگوں پر کوئی ٹیکس نہیں لگے گا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہا گیا کہ موٹر سائیکل رکشہ پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا حالانکہ یہ بھی قطعی غلط ہے ۔ ہم نے تو انہیں سہولت دی ہے کہ سالانہ کے ساتھ یکمشت ادائیگی کر سکتے ہیں اور اس میں انہیں ریلیف دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ٹیکس ریکوری کے نظام میں کرپشن او رمک مکا کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اسکے لئے ہم نے پنجاب ریو نیو اتھارٹی اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میں سٹرکچرل تبدیلیاں کی ہیں ،نظام کو آٹو میٹ کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے محکموں کی کاوش کی وجہ سے رواں مالی سال ٹیکس ریو نیو ریٹ 30فیصد تک بڑھا ہے اور پنجاب ٹیکس اکٹھاکرنے کے حوالے سے پنجا ب کی صورتحال وفاق سمیت دیگر صوبوں سے بہت بہتر ہے ۔

ہم محتاط ہیں کہ ترقیاتی پروگرام سے عام آدمی کو فائدہ پہنچے ۔ یہ ضرور ہے کہ ہمارا ٹیکس سٹرکچر جنرل سیلز ٹیکس آن سروسز ،پراپرٹی اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز پر ہے لیکن اس کا عام آدمی پر بوجھ نہیں ہے ۔اس کے بعد اسپیکر نے ایوان کی رائے لی اور اپوزیشن کی اس تحریک کو مسترد کر دیا گیا جسکے بعد ایوان نے کثرت رائے سے فنانس بل 2016ء کی منظوری دیدی ۔

بعد ازاں وزیر خزاننہ نے منظور شدہ اخراجات برائے سال 2016-17ء کا گوشوارہ ایوان میں پیش کیا ۔ وزیر قانون رانا ثنا اﷲ خان نے آرڈیننس ( رمیم ) سول کورٹس پنجاب 2016،مسودہ قانون بلڈ ٹرانسفیوژن سیفٹی پنجاب2016اور مسودہ قانو ( دوسری ترمیم ) ریو نیو اتھارٹی پنجاب 2016ء ایوان میں پیش کیا جسے اسپیکر نے متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کر کے دو ماہ میں رپورٹ طلب کر لی ۔

وزیر قانون رانا ثنا اﷲ خان نے مسودہ قانون ( چوتھی ترمیم ) مقامی حکومت پنجاب 2016ء ایوان میں پیش کیا ۔اپوزیشن نے جمع کرائی ترامیم پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے عجلت میں یہ قانون بنایا ہے اور اس کا انجام تباہی ہوتی ہے ۔ ترامیم کے بعد ترامیم کر کے اس کا حلیہ بیگاڑ دیا گیا ہے ۔ حکومت مقامی حکومتوں کو بااختیار نہیں بنانا چاہتی اور خزانے کی کنجی اور اختیارات تخت لاہور کے پاس رکھنا چاہتی ہے ۔

کیاعوام اس لئے ٹیکس دیں کہ حکمران دبئی اور لندن میں پراپرٹیاں خرید لیں ؟۔ اس ترمیم کے ذریعے غنڈہ ٹیکس اکٹھا کیا جائے گا ۔ حکومت جان بوجھ کر ایسے قانون بناتی ہے کہ اسکے خلاف لوگ عدالتوں میں چلے جائیں اور مقامی حکومتیں فعال نہ ہو سکیں۔ اس سے کرپشن کا نیا دروازہ کھلے گا ۔وزیر قانون رانا ثنا اﷲ خان نے جواب میں کہا کہ اپوزیشن نے ترامیم کی بجائے اِدھراُدھر کی باتیں کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے وائس چیئرمین ، ڈپٹی میئر اور خصوصی نشستیں بڑھانے اور طریقہ انتخاب کے حوالے سے ہمارے ساتھ مل کر الیکشن کمیشن سے بات کی لیکن یہاں واپس آ کر اسے عدالت میں چیلنج کر دیا گیا ۔ پیپلز پارٹی کی رٹ پٹیشن زیر التواء ہے اسے واپس لے لیا جائے ہم میئر ، ڈپٹی میئر اور خصوصی نشستوں پر دیگر مراحل کو مکمل کر اسکتے ہیں ۔

اپوزیشن کو شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخاب کراچی، روہڑی اور سکھر تک تو منطور ہے لیکن جب یہ معاملہ پنجاب میں داخل ہوتا ہے تو دھاندلی بن جاتا ہے ۔ ایوان نے اپوزیشن کی تمام ترامیم کو کثرت رائے سے مسترد کر کے مسودہ قانون ( چوتھی ترمیم ) مقامی حکومت پنجاب 2016ء کی منظوری دیدی ۔ مقامی حکومت کے مسودہ قانون کی منظوری کے دوران حکومتی اور اپوزیشن بنچوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی بھی کی گئی ۔

اپوزیشن اراکین گو نواز گو اور حکومتی اراکین گو عمران گو اور رو عمران رو کے نعرے لگاتے رہے تاہم اسپیکر نے مداخلت کر کے دونوں طرف سے اراکین کو چپ کرا دیا۔ قبل ازیں اسپیکر نے سردار علی رضا دریشک اور عبد المجید خان نیازی کی چار تحاریک استحقاق انکی ایوان میں عدم موجودگی کے باعث اگلے سیشن تک ملتوی کر دیں جبکہ جمیل حسن خان منج کی سیکرٹری لائیو سٹاک سے متعلق تحریک استحقاق پر قانون و پارلیمان کے امور کے پارلیمانی سیکرٹری نذر گوندل نے کہا کہ لائیو سٹاک کے پارلیمانی سیکرٹری آ جائیں اور جواب ملنے کے بعد فیصلہ کر لیا جائے تاہم دیگر اراکین نے اسے کمیٹی کے سپرد کرنے پر اصرار کیا جس پر اسپیکر نے مذکورہ تحریک استحقاق کو کمیٹی کے سپرد کر کے دو ماہ میں رپورٹ طلب کر لی ۔

ایجنڈا مکمل ہونے پر اسپیکر نے اجلاس آج منگل صبح دس بجے تک کیلئے ملتوی کردیا ۔ آج اجلاس میں رواں مالی سال کے ضمنی بجٹ پر عام بحث ہو گی ۔