پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے پاکستان کے قومی تناظر میں قومی بیانیہ کے رہنما اصول جاری کر دئیے

جمعہ 24 جون 2016 22:56

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔24 جون ۔2016ء ) پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے علمائے کرام ، دانشوروں ، صحافیوں، سول سوسائٹی اور مختلف شعبوں کے ماہرین کی مشاورت سے پاکستان کے قومی تناظر میں قومی بیانیہ کے رہنما اصول جاری کئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ریاست اور معاشرے کے مذہبی تصورات پر نظر ثانی کی جائے۔ قومی سلامتی کے امور پر پارلیمنٹ کی بالا دستی ہو۔

مذہب کی سیاسی تعبیر کا جائزہ لیا جائے۔ اس موقع پر وزیر مملکت برائے قانون و انصاف بیرسڑ ظفراﷲ ،سابق وزیر خارجہ انعام الحق ،اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئر مین ڈاکٹر خالد مسعود، لوک ورثہ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فوزیہ سعید پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پارلیمنٹری سروسز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر،ظفر اﷲ خان ، سابق وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی ڈاکٹر قبلہ ایاز ،خورشید ندیم، ڈاکٹرفرحان زاہد ، ڈاکٹر اشتیاق احمد ،ڈاکٹر فضل الرحمٰن ، سہیل تاجک، رومانہ بشیر ،احمدعلی ، اور دیگر بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں انتہا پسندی ،دہشت گردی ،سیاسی و سماجی ابتری عدم برداشت اور رویوں میں عمومی بگاڑ کا ایک بڑا سبب اْن بیانوں کو قرار دیا جاتا ہے ،جس کی نشونما ریاست نے تعلیمی نظام، سیاسی و سماجی اصطلاحات ،اندرونی اور خارجہ پالیسیوں کے بنیادی ہدف کے طور پر کی۔

سیکورٹی، سماجی اور مذہبی اشرافیہ نے ان بیانیوں کو مزید تقویت پہنچائی جن کی بنیاد تفریق پر تھی۔ریاست کے تناظر ، ویژن ضروریات، اہداف پر بحث سے قطع نظر گذشتہ 69 سالوں میں ایک ایسا قومی مزاج اور بیانیہ تشکیل پایا ہے،جس سے اب نہ تو ریاست مطمئن ہے اور نہ ہی سماج۔جہاں کئی انتہاء پسند اور عسکریت پسند گروہ ان بیانیوں سے قوت حاصل کرکے ریاست کو چیلنج کرتے ہیں وہاں ایسے اجتماعی رویے بھی فروغ پاتے ہیں جن کا وقتاًفوقتاً پر تشدد اظہار بڑے خطرے کی نشاندہی کرتا ہے ۔

جس سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ ریاست ایک نیا بیانیہ تشکیل دے ۔انھوں نے کہا کہ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے مختلف شعبوں کے ماہرین کے ساتھ مل کر اس مجوزہ بیانئے کے رہنما اصول وضع کئے ہیں ۔جن میں کہا گیا ہے کہ عسکریت پسندوں کے بیانیے کی قوت ان کی مذہبی دلیل میں پوشیدہ ہے اور اس کے لئے عسکریت پسندوں کے فکری تناظر کو سمجھ کر اس کا رد اہم ترین ضرورت ہے۔

بیانئے میں کہا گیا ہے کہ علماء اور ماہرین کے درمیان مسلسل مکالمہ ہو تاکہ دور حاضر کے تقاضوں کو سمجھا جا سکے اور منفی بیانیوں کا رد کیا جا سکے۔علماء بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی کے لئے مشترکات اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ جدید شہریت کے تقاضوں کی تفہیم پیدا کریں جو برداشت رواداری اور ہم آہنگی کے تصورات سے ہم آہنگ ہوں۔ثقافتی اور تہذیبی تنوع کو روایتی اور غیر روایتی تعلیم کی اساس بنایا جائے، مقامی ثقافتوں کو قومی ورثے کی اکائی تسلیم کیا جائے۔

طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ،نظام انصاف کی بہتری ،بہترین طرز حکمرانی ،قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم ،نئے وسائل کی پیداوار اور آبادی کے دباؤ کی منصوبہ بندی جیسے امور پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی خصوصی توجہ ضروری ہے۔۔سماجی رویوں کی تہذیب ضروری ہے ، جس میں تبدیلی ایک مثبت قدر کی حامل ہو۔پر امن اظہار (Peaceful expression) کو بطور کلیدی سماجی قدر کے طور پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

عمومی رویوں میں فرقہ ورانہ تقسیم کا بڑھتا ہوا رجحان سماجی ابتلا کی جانب پیش قدمی کا اظہار ہے، جسے فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے۔مسجد ،خانقاہ اور مزار کو ثقافتی تشکیل نو میں اہم حیثیت حاصل ہونی چاہئے۔وفاق اور صوبوں کو نصاب سازی کے رہنماء اصولوں پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے اور نصابی کتب سازی کے لیے الگ سے مستقل تحقیقی اور تعلیمی مراکز کے قیام کی ضرورت ہے۔

تنقیدی شعور کی بیداری نظام تعلیم کا بنیادی وصف ہونا چاہئے۔ابتدائی سطح کی تعلیم کے ادارے بشمول سرکاری پرائیویٹ ادارے اور مدارس میں شہریت کا مضمون لازمی شامل کیا جائے اور طالب علم کی آئین اور قانون کی روشنی میں اچھے شہری کے طور پر تربیت کو کلیدی حیثیت حاصل ہونی چاہئے۔آئین پاکستان ایک جامع عمرانی معاہدہ ہے۔پارلیمنٹ ہی اس پر نظر ثانی کا اختیا ر رکھتی ہے۔

ریاست اور سماج دونوں کو صرف آئین سے راہنمائی لینا ضروری ہے۔منفی بیانئے دستور سے ختم ہونگے اور یہ عمل مثبت طرز فکر کی بنیاد ڈالنے میں معاون ہوگا۔پارلیمانی طرز جمہوریت پاکستان جیسے نسلی ،لسانی ،ثقافتی اور مذہبی طور پر متنوع ملک کے لیے بہترین نظام ہے جسے مزید تقویت پہنچانے کی ضرورت ہے۔انصاف کی فراہمی ریاست کا بنیادی فریضہ ہے۔آئین کی حرمت ریاست کے تمام ادروں کے اہم فرائض منصبی میں ہے۔

زیریں عدالتوں اور نظام انصاف کے طریقہ کار میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں قانون سازی کرتے ہوئے آئین اور بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری لازمی ہے۔کالعد م تنظیموں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے اقدامات کئے جا سکتے ہیں ،بشرطیکہ :یہ تنظیمیں تشدد اور نفرت سے برات کا اعلان کریں اور آئین پاکستان کو مانتے ہوئے قانون کے دائرے میں کام کریں۔

ریاست ان تنظیموں کے بارے میں ابہام مکمل طور پر ختم کرے اور ان تنظیموں کے تزویراتی استعمال پر پالیسی و اضح کریں۔اس ابہام سے یہ تنظیمیں تقویت حاصل کرتی ہیں اور ٹی ٹی پی ،القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کو نظریاتی اور افرادی قوت فراہم کرتی ہیں۔ریاست اپنی علاقائی تزویراتی ترجیحات کا حقیقت پسندانہ تعین کرے اور اندرونی سلامتی فریم ورک کو اس سے مکمل طور پر الگ رکھے۔

خارجہ پالیسی خصوصاً ہمسایا ممالک سے تعلقات پر نظر ثانی بدلتے عالمی حالات کا اہم تقاضاہے۔ذرائع ابلاغ کو جمہوریت ، انسانی حقوق اور اظہار آزادی کے بنیادی فریم ورک میں رہتے ہوئے انتہا پسند رویوں اور بیانیوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔سائبر اسپیسز انتہا پسندوں اور دہشت گردو ں کے لیے ایسی ڈومین ثابت ہوا ہے کہ جہاں انہیں زیادہ چیلنج درپیش نہیں۔ سائبر اسپیسز میں ان کامقابلہ متبادل بیانیوں کے فروغ سے کیاجا سکتا ہے۔مقررین نے کہا کہ ان رہنما اصولوں کو مد نظر رکھ کر ایک ایسا قومی بیانیہ وضع کیا جا سکتا ہے جس سے پاکستان کے مسائل کے حل کی کوئی راہ نکالی جا سکتی ہے ۔

متعلقہ عنوان :