پانامہ تحقیقات کومنطقی انجام تک پہنچانا اپوزیشن کی قومی ذمہ داری ہے‘ڈاکٹر طاہر القادری

سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کا فیصلہ ضرور ہو گا اور قاتل اپنے انجام کو پہنچیں گے‘کس نے کتنا قرضہ لیا اور معاف کروایا یہ حقائق جسٹس جمشید کمیشن کی رپورٹ میں محفوظ ہیں‘جب تک یہ حکمران اور یہ نظام رہے گا لاشیں اٹھتی رہیں گی ،خزانہ لٹتا رہے گا‘سربراہ عوامی تحر یک کی گفتگو

جمعہ 24 جون 2016 21:22

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔24 جون ۔2016ء) پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا ہے کہ پانامہ تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانا اپوزیشن کی قومی ذمہ داری ہے‘ موجودہ حکمران کرپشن کے نظام کے بانی اور دہشت گردوں کے سپورٹر ہیں‘ جب تک یہ حکمران اور یہ نظام رہے گا لاشیں اٹھتی رہیں گی ،خزانہ لٹتا رہے گا‘ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کا فیصلہ ضرور ہو گا اور قاتل اپنے انجام کو پہنچیں گے‘ ٹی او آرز کے نام پر حکومت نے قوم اور اپوزیشن کو دھوکہ دینے کی کوشش کی‘ میں دہشتگردی اور کرپشن میں لتھڑے ہوئے اس نظام اور اس کے محافظوں کو انجام سے دو چار ہوتے دیکھ رہا ہوں۔

وہ گزشتہ روزپاکستان عوامی تحریک کے رہنماؤں سے گفتگو کررہے تھے۔

(جاری ہے)

سربراہ عوامی تحریک نے کہا کہ دہشت گردی کا وائرس قومی جسم میں موجود ہے۔ جب تک اس کا علاج نہیں ہو گا پائیدار امن کے دعوے خوش فہمی ہیں۔آپریشن ضرب عضب ضرور کامیاب ہوا مگر پہاڑوں میں جیتی ہوئی جنگ نااہل اور کرپٹ حکمران سرسبز میدانوں میں ہاررہے ہیں۔قومی ایکشن پلان کو ڈیڑھ سال ہو گیا ابھی تک قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ریفارمز کا آغاز نہیں ہوا اور نہ ہی سپیڈی جسٹس کی طرف سنجیدہ توجہ دی گئی۔

نیب کا رویہ آج بھی پنجاب کے معاشی دہشتگرد وزیروں، مشیروں کیلئے برادرانہ ہے۔جب تک موجودہ حکمران برسراقتدار رہیں گے قانون کا منصفانہ اطلاق ناممکن ہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں امجد صابری کی شہادت اور چیف جسٹس کے بیٹے کے اغواء سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر نے اپنی بھرپور موجودگی کا پیغام دیا ہے ۔سربراہ عوامی تحریک نے ٹی او آرز پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پانامہ لیکس میں وزیراعظم کے خاندان کا براہ راست نام آیا اور انہوں نے غیر مشروط طور پر خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے کی بجائے ایبٹ آباد کمیشن اور حمود الرحمان کمیشن کی تحقیقات کو پانامہ لیکس کے ٹی او آرز کا حصہ بنانے کا مطالبہ کر دیا جو افسوسناک ہی نہیں قابل مذمت اور قابل گرفت بھی ہے۔

ان دونوں ایشوز کا پانامہ لیکس سے کوئی تعلق نہیں ہے ؟ انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس ایک سادہ سا مسئلہ تھا وزیراعظم کو قوم کو بتانا چاہیے تھا کہ انہوں نے کس پیسے سے 92ء ، 93 ء، 95 ء میں بیرون ملک جائیدادیں خریدیں اور پھر انہیں سالوں کی ٹیکس ریٹرنز اور انتخابی گوشوارے کے ثبوت قوم کے سامنے رکھ دیتے مگر ایسا نہیں ہوا اور صورتحال الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی ہو چکی ہے۔

ایبٹ آباد کمیشن کے ساتھ ساتھ 1947 سے لیکر تاحال قرضے معاف کروانے والوں کو بھی ٹی او آرز میں شامل کرنے کی ضد کی گئی حالانکہ 2012میں سپریم کورٹ کے جسٹس جمشید کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا تھا جس نے 1975سے لے کر 2012 تک قرضے لینے اور معاف کرانیوالوں کی ایک رپورٹ مرتب کی تھی ۔یہ رپورٹ 5ہزار صفحات پر مشتمل ہے اس رپورٹ پر 3سال تک کارروائی نہ کرنے کے موجودہ حکمران مجرم ہیں ،انہوں نے کہاکہ جسٹس جمشید کی رپورٹ پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوا ؟اس رپورٹ کو 2013 کے عام انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کے پاس ہونا چاہیے تھا اور اس رپورٹ کی روشنی میں آرٹیکل 62، 63 کے تحت امیدواروں کی سکروٹنی ہونی چاہیے تھی جو نہیں ہونے دی گئی ۔

موجودہ حکمران کن قرضوں کی معافی کی بات کرتے ہیں اس پر تو کمیشن اپنی فائنڈنگ دے چکا ہے صرف کیس عدالتوں میں بھجوانے کی دیر ہے ۔