اماں ایک دو دن کی بات ہے پھر تو بس سکون کی نیند سونا ہے، ساری تھکن دور ہوجائے گی: شہید امجد صابری کے اپنی والدہ سے کہے گئے آخری الفاظ

muhammad ali محمد علی جمعہ 24 جون 2016 21:05

اماں ایک دو دن کی بات ہے پھر تو بس سکون کی نیند سونا ہے، ساری تھکن دور ..

کراچی(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 24 جون 2016ء) شہید امجد صابری کی جانب سے شہادت سے قبل اپنی والدہ سے کہا گیا تھا کہ "اماں ایک دو دن کی بات ہے پھر تو بس سکون کی نیند سونا ہے، ساری تھکن دور ہوجائے گی"۔ تفصیلات کے مطابق شہید امجد صابری کی والدہ نے بتایا ہے کہ جس روز ان کے بیٹے کی شہادت ہوئی وہ اس روز کافی اداس تھے۔ شہادت سے قبل اپنے آخری ٹی وی پروگرام میں وہ رو پڑے تھے اور اس حوالے سے جب ان کی والدہ نے استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’’اماں دل بہت اداس ہورہا ہے‘‘۔

اس کی آنکھوں میں آنسو جھلکے اور کہنے لگا "امی بس دل بہت عجیب ہورہا ہے اور پتہ نہیں بس اللہ خیرکرے ، آپ فکر نہ کریں انشاء اللہ کل تک سب ٹھیک ہوجائے گا بس اپنا خیال رکھیں ، آپ کو اپنے پوتے پوتیوں کی خوشیاں دیکھنی ہیں". شہید کی والدہ بتاتی ہیں کہ امجد کی اس حالت کے بعد دل بہت عجیب سا ہوگیا ، ایسا لگ رہا تھا کہ کلیجہ باہر آجائے گا۔

(جاری ہے)

ایسے میں انہوں نے امجد کو بلایا تو وہ میرے کمرے میں آ گیا اور مجھے تسلی دے کر سلانے لگا۔ پھر میری جب گھڑی پر نظر پڑی تو صبح کے 8 بج گئے تھے تو میں نے اُس کو بولا کہ جاؤ تم سوجاؤ تمھیں صبح جلدی اٹھنا ہے اور پھر مصروفیت والا دن گزارانا ہے۔ اس کے جواب میں امجد نے مسکراتے ہوئے کہا کہ "اماں ایک دو دن کی بات ہے پھر تو بس سکون کی نیند سونا ہے، ساری تھکن دور ہوجائے گی اور یہ جو آپ میری فکر کرتی ہیں نا اس کی عادت ختم کردیں"۔

امجد نے میرے کمرے سے جاتے ہوئے پوچھا کہ " اماں یہ مغفرت کا عشرہ چل رہا ہے نا ؟" تو میرے ہاں میں جواب دینے پر اس نے کہا کہ "اللہ ہماری عبادتوں کو قبول کرے اور ہم سب کی مغفرت کا اعلان کردے، آمین.." شہید کی والدہ بتاتی ہیں کہ اس روز امجد اپنی حمد “کرم مانگتا ہوں ، عطاء مانگتا ہوں “ بہت گنگنا رہا تھا۔ اس روز گھر سے نکلنے سے قبل امجد نے اپنے بچوں کو اٹھایا اور اپنے بیٹے سے فرمائش کی کہ دادا کا کلام ’’لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی‘‘ سناؤ۔

اس پر میرے پوتے نے کہا کہ بابا آج نہیں کل سنا دوں گا آج میرا دل نہیں چاہ رہا۔ تو امجد نے بے ساختہ جواب دیا کہ “ابھی بابا فرمائش کررہے ہیں کہ تو نہیں سنُا رہے پھر جب تمھارا سنانے کا دل چاہے گا تو میں نہیں سنوں گا‘‘۔ پھر اسی دوران ظہر کی اذان ہو گئی اور وہ نماز پڑھ کر باہر جانے کیلئے تیار ہو گیا۔ جب میں نے استفسار کیا کہ کہاں جا رہے تو کنا لگا کہ "ابا کے پاس" جا رہا۔

اس پر میں نے اسے خوب ڈانٹا تو ہنس کر کہنے لگا کہ اماں مذاق کر رہا تھا۔ پھر امجد گھر سے روانہ ہو گیا تاہم میرا دل پھر بھی بہت بے چین تھا۔ پھر دوپہر کو جب پڑوسی سے خبر ملی کہ امجد کی کار پر فائرنگ ہوئی ہے اور بعد میں اس کی شہادت کی خبر ملی تو تب بھی میں یہی دعا کر رہی تھی کہ اللہ یہ خبر درست نہ ہو۔ یہ سب داستان بیان کرتے ہوئے شہید امجد صابری کی والدہ کا ضبط جواب دے گیا اور زار و قطار رونے لگیں اور کہنے لگیں کہ ’’امجد اپنے بابا کے پاس چلا گیا، امجد اپنے بابا کے پاس چلا گیا‘‘۔

متعلقہ عنوان :