پنجاب اسمبلی نے آئندہ مالی سال کیلئے15کھرب31ارب سے زائد کے مطالبات زر کی منظور دیدی

جمعہ 24 جون 2016 16:46

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔24 جون ۔2016ء) پنجاب اسمبلی نے آئندہ مالی سال کیلئے15کھرب31ارب14کروڑ10لاکھ61ہزار کے43مطالبات زر کی منظور دیدی‘عوام کو 65ارب45کروڑ30لاکھ کی سبسڈی دی جائیگی ‘اپوزیشن کی کٹوتی کی2و تحاریک مسترد‘وزیر اعلی شہبا زشر یف کی ایوان میں آمد پر حکومتی اراکین کے ”شیر آیا شیر “کے نعرے جبکہ صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود احمد خان نے کہا ہے کہ 8سالوں میں سکولوں میں جانے والے طلبہ کی تعداد90ہزار سے بڑھ کر ایک کروڑ 25لاکھ تک پہنچ گئی ہے‘2018ء تک کوئی بچہ سکول سے باہر نہیں رہیگا‘اساتذہ کوبیرون ممالک کے اداروں سے تربیت دلا رہے ہیں اورچار لاکھ اساتذہ صوبے کی قسمت بدلنے کیلئے اپنا کردار کر رہے ہوں گے ۔

جمعہ کے روز پنجاب اسمبلی کا اجلاس سپیکر رانا محمد اقبال خان کی صدارت میں تلاوت قر آن پاک سے شروع ہوا جبکہ اجلاس کے آغاز میں (ق) لیگ کی خاتون رکن اسمبلی خدیجہ عمر نے خدمات صحت پر کٹوتی کی تحریک پر دوبارہ بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ صحت میں کروڑوں روپے کی کرپشن ہے ۔

(جاری ہے)

محکمہ صحت سے متعلق ساڑھے 13ہزار آڈٹ پیراز موجود ہیں ۔ اس محکمے میں جدید طریقے سے کرپشن کی جارہی ہے جسکے تحت خریداری کی مد میں ملنے والی بھاری رقوم کو بینکوں ں میں رکھ دیا جاتا ہے اور ان سے منافع کھایا جاتا ہے۔

صوبائی وزیر ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ صحت کے شعبے میں بہترین سہولیات کی فراہمی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے ۔ حکومت عوام کو صحت کی سہولیات ان کی دہلیز پر مہیا کرنا چاہتی ہے۔ ہمارا روڈ میپ ڈلیوی میکنزم کی سہولتو ں میں بہتری ہے اور اسکے لئے حکومت دن رات محنت کر رہی ہے ۔ حکومت نے امراض کے پیشگی تدارک کیلئے ویکسی نیشن کا پروگرام شروع کیا ہے اور اسکی کوریج میں 22فیصد اضافہ ہوا ۔

میں یہ نہیں کہتی کہ سب کچھ حاصل کر لیا ہے بلکہ حکومت اس کے لئے دن رات کوشاں ہے اوربہت کام کرنا باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی طرف سے صحت کے شعبے میں بجٹ کے استعمال کے حوالے سے اعدادوشمار قطعی غلط ہیں ۔ 30جون تک رواں مالی سال میں صحت کی مد میں85فیصد سے زائد بجٹ استعمال ہو جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں صحت کی سہولتوں کی بہتری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خیبر پختوانخواہ سمیت دیگر صوبوں سے مریضوں کو یہاں ریفر کیا جاتا ہے اور اس سے بھی ہمارے اوپر بوجھ بڑھ رہا ہے لیکن ہم بڑے دل کے لوگ ہیں ۔

ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے صوبے بھی پنجاب کی طرح اپنے ہسپتالوں میں سہولتیں مہیا کریں ۔اسپیکر کی طرف سے رائے شماری کے بعد اپوزیشن کی کٹوتی کی تحریک کو کثرت رائے سے مستر د کر کے بسلسلہ خدمات 71ارب6کروڑ98لاکھ11ہزار روپے کا مطالبہ زر منظور کر لیا گیا ۔ اپوزیشن نے تعلیم پر جمع کرائی گئی کٹوتی کی تحریک پر بھی بحث میں حصہ لیا ۔ خدیجہ عمر نے کہا کہ حکومت ناکام تجربات کے باعث سو فیصد شرح خواندگی کا ہدف حاصل نہیں کر سکی ۔

دعوؤں کے باوجود حکومت فروغ تعلیم کے لئے کوئی واضح پالیسی نہیں دے سکی ۔ 2کروڑ40لاکھ بچے سکولوں میں نہیں جارہے جن میں سے 60فیصد کا تعلق پنجاب سے ہے ۔ جس صوبے کے ایک کروڑ بچے سکولوں میں نہ جارہے ہوں اس کے مستقبل کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ بچے سٹریٹ کرائمز اور کالعدم تنظیموں کا حصہ بن کر دہشتگردی کے فروغ کا باعث بنتے جارہے ہیں ۔

محکمہ تعلیم کا کرپشن میں ٹاپ فائیو میں سے دوسرا نمبر ہے جس کاثبوت ایک لاکھ سے زائد آڈٹ پیروں میں سے 12854اس کے بارے میں ہیں ۔ پہلے گھوسٹ ٹیچر ز سنے تھے اب گھوسٹ طلبہ بھی سامنے آرہے ہیں جو حکومت عالمی اداروں کو دکھانے کیلئے پیش کر رہی ہے ۔سردار شہاب الدین نے کہا کہ رانا مشہود چار سال میں ایک مرتبہ بھی لیہ نہیں گئے کیا یہ تخت لاہور کے وزیرتعلیم ہیں۔

ہمارے نشیبی علاقوں میں 30فیصد سکول بند پڑے ہیں۔ اس محکمے کو ایک روپیہ تو ایک ٹکا بھی نہیں دینا چاہیے۔ سعدیہ سہیل رانا نے کہا کہ پنجاب میں 42فیصد لڑکے اور 46فیصد لڑکیاں سکولوں سے باہر ہیں۔ 93فیصد سکولوں میں بنیادی سہولتیں ہی موجود نہیں۔ میاں اسلم اقبال نے کہا کہ شعبہ تعلیم میں حکومت کی ترجیحات کا یہ عالم ہے کہ رواں مالی سال میں اسکے بجٹ کو ریوائز کر دیا گیا اور آدھے سے آدھا بجٹ بھی استعمال نہیں ہوا۔

حکومت دعوے کر رہی ہے کہ بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے لیکن یہ صرف ایک فیصد بڑھایا گیا ہے ۔ حکومت کی ترجیحات پل ، سڑکیں اور ٹرینیں بنانا ہے تعلیم حکومت کی ترجیحات میں سرے سے ہی شامل نہیں۔ آڈیٹر جنرل کی بکس میں پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا صحیح چہرہ دکھایا گیا ہے ۔ پیف کو تعلیم کے فروغ کی بجائے سرمایہ کاری کا ادارہ بنا دیا گیا ہے ۔ حکمران شعبدہ بازی کے کلچر سے کب باہر نکلیں گے۔

وزیر اعلیٰ دور دراز علاقوں میں بھٹوں پرچھاپے مار رہے ہیں لیکن انکی ناک کے نیچے ہوٹلوں، ورکشاپس اور دکانوں پر چائلڈ لیبر ہو رہی ہے ۔وزیر تعلیم رانا مشہود نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تعلیم کا فروغ ایک تحریک ہے ۔ہم سرکاری سکولوں میں طلبہ کو وہی ماحول اور سہولیات فراہم کرنا چاہتے ہیں جو پرائیوٹ سکولوں میں ہوتا ہے۔ پانچ سالہ پروگرام کے تحت نوے فیصد سکولوں میں 90فیصد سے زائد مسنگ فسیلیٹز مہیا کر دی گئی ہیں ۔

اپوزیشن سکولوں سے باہر بچوں کے حوالے سے غلط اعدادوشمار پیش کر رہی ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن کی سٹڈی کے مطابق 5سے 16سال کے کل بچوں کی تعداد30.6ملین ہے ۔ ہر سال 4.6ملین بچے سکولوں میں آرہے ہیں ۔8سالوں میں سکولوں میں جانے والے طلبہ کی تعداد90ہزار سے بڑھ کر ایک کروڑ 25لاکھ تک پہنچ گئی ہے ۔2018ء تک کوئی بچہ سکول سے باہر نہیں رہیگا ۔ اپوزیشن کی کٹوتی کی تحریک تعلیم کے بجٹ پر ڈاکہ مارنے کی تحریک ہے ۔

حکومت نے بھٹوں سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کا آغاز کیا ہے انشا اللہ اب آٹو ورکشاپ اور ہوٹلوں سمیت دیگر مقامات پر چائلڈ لیبر کرنے والے بچے بھی سکولوں میں آئیں گے۔ اساتذہ کوبیرون ممالک کے اداروں سے تربیت دلا رہے ہیں اورچار لاکھ اساتذہ صوبے کی قسمت بدلنے کیلئے اپنا کردار کر رہے ہوں گے ۔ مزید 70ہزار اساتذہ کی بھرتی کرنے جارہے ہیں پنجاب میں کوئی بھی یونین کونسل گرلز ہائی سکول کے بغیر نہیں ہو گی ۔ جنوبی پنجاب کی چار لاکھ بچیوں کو ایک ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جارہا ہے۔ ایوان نے اپوزیشن کی کٹوتی کی تحریک کو کثرت رائے مسترد کر دیا جبکہ اجلاس کا ایجنڈہ پورا ہونے پر سپیکر نے اجلاس سوموار کیلئے ملتوی کر دیا ہے ۔