پنجاب اسمبلی نے 15 کھرب 31 ارب 14 کروڑ 10 لاکھ 61 ہزار کے مجموعی طور پر 43 مطالبات زر کی منظوری دیدی

جمعہ 24 جون 2016 14:58

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔24 جون ۔2016ء) پنجاب اسمبلی نے 15 کھرب 31 ارب 14 کروڑ 10 لاکھ 61 ہزار کے مجموعی طور پر 43مطالبات زر کی منظوری دیدی ،اپوزیشن کی طرف سے مخالفت نہ کرنے پر سبسڈیز کی مد میں 65ارب45کروڑ30لاکھ کا مطالبہ زر متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا ،اپوزیشن کی کٹوتی کی دو تحاریک کثریت رائے سے مسترد کر دی گئیں جبکہ گلوٹین کے اطلاق کے باعث دو تحاریک زیر بحث نہ آ سکیں ۔

پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز مقررہ وقت نو بجے کی بجائے 30منٹ کی تاخیر سے اسپیکر رانا محمد اقبال کی صدارت میں شروع ہوا ۔ اجلاس کے آغاز پر ایوان میں حکومت اور اپوزیشن کے صرف چار اراکین موجود تھے تاہم اسکے بعد تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ اسپیکر کی اجازت کے بعد اپوزیشن کی خاتون رکن خدیجہ عمر نے خدمات صحت پر کٹوتی کی تحریک پر دوبارہ بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ صحت میں کروڑوں روپے کی کرپشن ہے ۔

(جاری ہے)

محکمہ صحت سے متعلق ساڑھے 13ہزار آڈٹ پیراز موجود ہیں ۔ اس محکمے میں جدید طریقے سے کرپشن کی جارہی ہے جسکے تحت خریداری کی مد میں ملنے والی بھاری رقوم کو بینکوں ں میں رکھ دیا جاتا ہے اور ان سے منافع کھایا جاتا ہے۔ صوبائی وزیر ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ صحت کے شعبے میں بہترین سہولیات کی فراہمی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے ۔

حکومت عوام کو صحت کی سہولیات ان کی دہلیز پر مہیا کرنا چاہتی ہے۔ ہمارا روڈ میپ ڈلیوی میکنزم کی سہولتو ں میں بہتری ہے اور اسکے لئے حکومت دن رات محنت کر رہی ہے ۔ حکومت نے امراض کے پیشگی تدارک کیلئے ویکسی نیشن کا پروگرام شروع کیا ہے اور اسکی کوریج میں 22فیصد اضافہ ہوا ۔ میں یہ نہیں کہتی کہ سب کچھ حاصل کر لیا ہے بلکہ حکومت اس کے لئے دن رات کوشاں ہے اوربہت کام کرنا باقی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی طرف سے صحت کے شعبے میں بجٹ کے استعمال کے حوالے سے اعدادوشمار قطعی غلط ہیں ۔ 30جون تک رواں مالی سال میں صحت کی مد میں85فیصد سے زائد بجٹ استعمال ہو جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں صحت کی سہولتوں کی بہتری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خیبر پختوانخواہ سمیت دیگر صوبوں سے مریضوں کو یہاں ریفر کیا جاتا ہے اور اس سے بھی ہمارے اوپر بوجھ بڑھ رہا ہے لیکن ہم بڑے دل کے لوگ ہیں ۔

ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے صوبے بھی پنجاب کی طرح اپنے ہسپتالوں میں سہولتیں مہیا کریں ۔اسپیکر کی طرف سے رائے شماری کے بعد اپوزیشن کی کٹوتی کی تحریک کو کثرت رائے سے مستر د کر کے بسلسلہ خدمات 71ارب6کروڑ98لاکھ11ہزار روپے کا مطالبہ زر منظور کر لیا گیا ۔ اپوزیشن نے تعلیم پر جمع کرائی گئی کٹوتی کی تحریک پر بھی بحث میں حصہ لیا ۔ خدیجہ عمر نے کہا کہ حکومت ناکام تجربات کے باعث سو فیصد شرح خواندگی کا ہدف حاصل نہیں کر سکی ۔

دعوؤں کے باوجود حکومت فروغ تعلیم کے لئے کوئی واضح پالیسی نہیں دے سکی ۔ 2کروڑ40لاکھ بچے سکولوں میں نہیں جارہے جن میں سے 60فیصد کا تعلق پنجاب سے ہے ۔ جس صوبے کے ایک کروڑ بچے سکولوں میں نہ جارہے ہوں اس کے مستقبل کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ بچے سٹریٹ کرائمز اور کالعدم تنظیموں کا حصہ بن کر دہشتگردی کے فروغ کا باعث بنتے جارہے ہیں ۔

محکمہ تعلیم کا کرپشن میں ٹاپ فائیو میں سے دوسرا نمبر ہے جس کاثبوت ایک لاکھ سے زائد آڈٹ پیروں میں سے 12854اس کے بارے میں ہیں ۔ پہلے گھوسٹ ٹیچر ز سنے تھے اب گھوسٹ طلبہ بھی سامنے آرہے ہیں جو حکومت عالمی اداروں کو دکھانے کیلئے پیش کر رہی ہے ۔سردار شہاب الدین نے کہا کہ رانا مشہود چار سال میں ایک مرتبہ بھی لیہ نہیں گئے کیا یہ تخت لاہور کے وزیرتعلیم ہیں۔

ہمارے نشیبی علاقوں میں 30فیصد سکول بند پڑے ہیں۔ اس محکمے کو ایک روپیہ تو ایک ٹکا بھی نہیں دینا چاہیے۔ سعدیہ سہیل رانا نے کہا کہ پنجاب میں 42فیصد لڑکے اور 46فیصد لڑکیاں سکولوں سے باہر ہیں۔ 93فیصد سکولوں میں بنیادی سہولتیں ہی موجود نہیں۔ میاں اسلم اقبال نے کہا کہ شعبہ تعلیم میں حکومت کی ترجیحات کا یہ عالم ہے کہ رواں مالی سال میں اسکے بجٹ کو ریوائز کر دیا گیا اور آدھے سے آدھا بجٹ بھی استعمال نہیں ہوا۔

حکومت دعوے کر رہی ہے کہ بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے لیکن یہ صرف ایک فیصد بڑھایا گیا ہے ۔ حکومت کی ترجیحات پل ، سڑکیں اور ٹرینیں بنانا ہے تعلیم حکومت کی ترجیحات میں سرے سے ہی شامل نہیں۔ آڈیٹر جنرل کی بکس میں پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا صحیح چہرہ دکھایا گیا ہے ۔ پیف کو تعلیم کے فروغ کی بجائے سرمایہ کاری کا ادارہ بنا دیا گیا ہے ۔ حکمران شعبدہ بازی کے کلچر سے کب باہر نکلیں گے۔

وزیر اعلیٰ دور دراز علاقوں میں بھٹوں پرچھاپے مار رہے ہیں لیکن انکی ناک کے نیچے ہوٹلوں، ورکشاپس اور دکانوں پر چائلڈ لیبر ہو رہی ہے ۔وزیر تعلیم رانا مشہود نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تعلیم کا فروغ ایک تحریک ہے ۔ہم سرکاری سکولوں میں طلبہ کو وہی ماحول اور سہولیات فراہم کرنا چاہتے ہیں جو پرائیوٹ سکولوں میں ہوتا ہے۔ پانچ سالہ پروگرام کے تحت نوے فیصد سکولوں میں 90فیصد سے زائد مسنگ فسیلیٹز مہیا کر دی گئی ہیں ۔

اپوزیشن سکولوں سے باہر بچوں کے حوالے سے غلط اعدادوشمار پیش کر رہی ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن کی سٹڈی کے مطابق 5سے 16سال کے کل بچوں کی تعداد30.6ملین ہے ۔ ہر سال 4.6ملین بچے سکولوں میں آرہے ہیں ۔8سالوں میں سکولوں میں جانے والے طلبہ کی تعداد90ہزار سے بڑھ کر ایک کروڑ 25لاکھ تک پہنچ گئی ہے ۔2018ء تک کوئی بچہ سکول سے باہر نہیں رہیگا ۔ اپوزیشن کی کٹوتی کی تحریک تعلیم کے بجٹ پر ڈاکہ مارنے کی تحریک ہے ۔

حکومت نے بھٹوں سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کا آغاز کیا ہے انشا اللہ اب آٹو ورکشاپ اور ہوٹلوں سمیت دیگر مقامات پر چائلڈ لیبر کرنے والے بچے بھی سکولوں میں آئیں گے۔ اساتذہ کوبیرون ممالک کے اداروں سے تربیت دلا رہے ہیں اورچار لاکھ اساتذہ صوبے کی قسمت بدلنے کیلئے اپنا کردار کر رہے ہوں گے ۔ مزید 70ہزار اساتذہ کی بھرتی کرنے جارہے ہیں۔ پنجاب میں کوئی بھی یونین کونسل گرلز ہائی سکول کے بغیر نہیں ہو گی ۔

جنوبی پنجاب کی چار لاکھ بچیوں کو ایک ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جارہا ہے۔ ایوان نے اپوزیشن کی کٹوتی کی تحریک کو کثرت رائے مسترد کر دیا اور تعلیم کی مد میں 61ارب27کروڑ36لاکھ18ہزار روپے کا مطالبہ زر منظور کر لیا گیا ۔اسپیکر کی طرف سے اعلان کردہ وقت پورا ہونے پر گلوٹین کے اطلاق کے ذریعے کارروائی کا آغاز کر کے 15کھرب31ارب14کروڑ10لاکھ61ہزار کے مجموعی طور پر 43مطالبات زر کی منظوری دیدی جس میں مد افیون 81لاکھ 51ہزار روپے ، مالیہ اراضی 4ارب 49کروڑ 12لاکھ 76ہزار روپے ، صوبائی آبکاری 8کروڑ 92لاکھ 24ہزار روپے ، اسٹامپس 78کروڑ 95لاکھ 46 ہزار روپے ، جنگلات 2ارب 74کروڑ 22لاکھ روپے ، رجسٹریشن 10کروڑ 37لاکھ 11ہزار روپے ، اخراجات برائے قانون موٹر گاڑیاں 13کروڑ37لاکھ 11ہزار روپے ، دیگر ٹیکس و محصولات 96کروڑ 3لاکھ 65ہزار روپے ، آبپاشی و بحالی اراضی 16ارب 36کروڑ 48لاکھ 56ہزار روپے ، انتظام عمومی 31ارب 99کروڑ 58لاکھ روپے ، نظام عدل 15ارب 15کروڑ 41لاکھ 51ہزار روپے ، اخراجات برائے جیل خانہ جات و سزا یافتگان کی بستیاں 9ارب 93کروڑ 59لاکھ 95ہزار روپے ، پولیس 88ارب 63کروڑ 6لاکھ 69ہزار روپے ، عجائب گھر 15کروڑ 90لاکھ 69ہزار روپے ، تعلیم 61ارب 27کروڑ 36لاکھ 18ہزار روپے ، خدمات صحت 71ارب 6کروڑ 98لاکھ 11ہزار روپے ، صحت عامہ 12ارب 83کروڑ 56لاکھ 23ہزار روپے ، زراعت 7ارب 86کروڑ 87لاکھ 89ہزار روپے ، 59کروڑ 93لاکھ 85ہزار روپے ، ویٹرنری 4ارب 24کروڑ 49لاکھ 41ہزار روپے ، کوآپریشن 22کروڑ 50لاکھ 61ہزار روپے ، صنعتیں 7ارب 56کروڑ 5لاکھ 83ہزار روپے ، متفرق محکمہ جات 3ارب 97کروڑ 28لاکھ 19ہزار روپے ، سول ورکس 4ارب 10کروڑ 48لاکھ 45ہزار روپے ،مواصلات برداشت 7ارب 84کروڑ 80لاکھ 71ہزار روپے ، محکمہ ہاؤسنگ اینڈ فزیکل پلاننگ 33کروڑ 61لاکھ 63ہزار روپے ، ریلیف ایک ارب 55کروڑ 79لاکھ 51ہزار روپے ، پنشن ایک کھرب 28ارب روپے ، سٹیشنری اینڈ پرنٹنگ 22کروڑ 32لاکھ 35ہزار روپے ، سبسڈیز 65ارب 45کروڑ 30لاکھ روپے ، متفرقات 2کھرب 82ارب 27کروڑ 72لاکھ 96ہزار روپے ، شہری دفاع 6کروڑ 89لاکھ 79ہزار روپے ، غلے اور چینی کی سرکاری تجارت ایک کھرب 24ارب 49کروڑ 11لاکھ 60ہزار روپے ، میڈیکل سٹورز اور کوئلے کی سرکاری تجارت 4کروڑ 1لاکھ 33ہزار روپے ، قرضہ جات برائے سرکاری ملازمین ایک ہزار روپے ، سرمایہ کاری 10ارب روپے ، ترقیات 3کھرب 88ارب 49کروڑ 80لاکھ 93ہزار روپے ، تعمیرات آبپاشی 45ارب 52کروڑ 80لاکھ روپے ، زرعی ترقی و تحقیق 56کروڑ 53لاکھ 95ہزار روپے ، ٹاؤن ڈویلپمنٹ 50کروڑ روپے ، شاہرات و پل 78ارب 98کروڑ 92لاکھ 67ہزار روپے ، سرکاری عمارات 35ارب 91کروڑ 92لاکھ 45ہزار روپے جبکہ قرضہ جات برائے میونسپلیٹیز /خود مختار ادارہ جات وغیرہ کے لئے 15ارب 52کروڑ 95لاکھ 93ہزار روپے کی منظوری دی گئی۔

یاد رہے کہ بدھ کے روز پنجاب اسمبلی کے ایوان نے زراعت اور ترقیات کی مد میں مجموعی طور پر 3 کھرب 96 ارب 36 کروڑ 68 لاکھ 82 ہزار روپے کے مطالبات زر کی منظوری دیدی تھی جبکہ اپوزیشن کی کٹوتی کی تحاریک کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا تھا ۔مطالبات زر کی منظوری کے مرحلے کے دوران وزیر اعلیٰ شہباز شریف ایوان میں آئے تو حکومتی اراکین نے شیر ،شیر کے نعرے لگا کر ان کا استقبال کیا ۔

قبل ازیں اجلاس کے آغاز پر اسپیکر نے سردار علی رضا دریشک ، عبد المجید خان نیازی ، الیاس چنیوٹی اور جمیل حسن خان منج کی چھ تحاریک استحقاقات محرکین کی ایوان میں عدم موجودگی کے باعث ملتوی کر دیں ۔ ایوان میں سات تحاریک التوائے کار پڑھی گئیں تاہم محکموں کی طرف سے جوابات نہ آنے پر انہیں بھی ایک ہفتے کیلئے ملتوی کر دیا گیا ۔ اسپیکر نے ایجنڈا مکمل ہونے پر اجلاس پیر کی صبح گیارہ بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا۔