بھارت کا این ایس جی رکنیت کا خواب چکنا چور ہو گیا

امریکہ سمیت مغربی ممالک کی بھرپور حمایت کے باوجود جوہری کلب میں شمولیت کے معاملے پر متفقہ فیصلہ نہ ہوسکا چین ، روس، برازیل، آسٹریا، نیوزی لینڈ، آئرلینڈ اور ترکی کی بھر پورمخالفت

جمعہ 24 جون 2016 13:26

بھارت کا این ایس جی رکنیت کا خواب چکنا چور ہو گیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔24 جون۔2016ء) امریکہ کی حمایت کے باوجود ہندوستان کا نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) میں شمولیت کا خواب چکنا چور ہوگیا۔جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں نیوکلیئرسپلائرز گروپ کے اجلاس کا آخری روز ہے جس میں امریکہ سمیت مغربی ممالک کی بھرپور حمایت کے باوجود بھارت کو جوہری کلب میں شمولیت کے معاملے پر متفقہ فیصلہ نہ ہوسکا۔

سفارتی ذرائع کے مطابق اجلاس میں جوہری عدم پھیلاوٴ (این پی ٹی) پر دستخط نہ کرنے والے ممالک کو جوہری کلب کی رکنیت نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بھارت کو اْس وقت شدید جھٹکا لگا جب کچھ ممالک، جنھوں نے ہندوستان کی حمایت کا وعدہ کیا تھا،اجلاس میں ایسا نہیں کیا اور چین سمیت روس، برازیل، آسٹریا، نیوزی لینڈ، آئرلینڈ اور ترکی نے بھارت کی درخواست پر مخالفت کی۔

(جاری ہے)

کارنیگی اینڈوومنٹ کے سینئر ایسوسی ایٹ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ 48 رکنی این ایس جی گروپ نے ہندوستان کی درخواست پر سوال کھڑے کیے۔این ایس جی گروپ کی رکنیت کے لیے تمام ممالک کا اتفاق رائے ہونا ضروری ہے اور اگر کسی ایک ملک نے بھی ہندوستان کی رکنیت کی مخالفت کی تو وہ جوہری کلب میں شامل نہیں ہوسکتا۔اجلاس میں بھارت کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، بھارت نے نہ صرف نان پرولفریشن ٹریٹی (این ٹی پی) پر دستخط نہیں کیا بلکہ اس نے 2008 میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی رکنیت ملنے کے بعد بھی اس معاہدے کی قوانین کی پاسداری نہیں کی۔

بھارت نے نہ ہی کومپری ہینسیو نیوکلیئرٹیسٹ بین ٹریٹی (سی ٹی بی ٹی) معاہدے پر کوئی پیش رفت کی ہے اور نہ ہی اپنے سول اور ملٹری جوہری ہتھیاروں کو الگ رکھا ہے۔ بھارت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سب سے بڑا غیر محفوظ جوہری پروگرام چلارہا ہے جس کی جوہری مواد تیار کرنے کی صلاحیت پاکستان کے مقابلے 7.7 گنا زیادہ ہے۔چین، ہندوستان کی رکنیت کا سب سے بڑا مخالف تھا تاہم ہندوستان کو کئی مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی۔

چین، ہندوستان کو این ایس جی کی رکنیت کے لیے دی جانے والی رعایت کا مخالف تھا اور اس نے این پی ٹی معاہدے پر دستخط نہ کرنے والے ممالکوں کو جوہری کلب میں شامل نہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔چین کی مخالف کے باوجود ہندوستان پر امید تھا کہ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن اجلاس کی سائیڈ لائن میں ملاقات کریں گے تاہم اس ملاقات کے باوجود بھارت اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکا۔

اس حوالے سے چینی صدر نے پاکستانی ہم منصب ممنون حسین کو بتایا کہ ان کی حکومت این ایس جی رکنیت کے معاملے میں اپنے موقف پر قائم رہے گی۔ایک غیر ملکی سفارتی ذرائع نے بتایا کہ بھارت کی رکنیت کا معاملہ این ایس جی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا لیکن جاپان نے بھارت کی درخواست پر غور کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ واضح رہے کہ بھارت کی این ایس جی رکنیت میں دلچسپی کے بعد پاکستان نے بھی اپنی رکنیت کے لیے لابنگ شروع کردی تھی اور اس حوالے سے گزشتہ ماہ باضاطہ طور پر درخواست بھی جمع کروائی تھی۔

اس مقصد کے لیے پاکستانی کے سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری کی سربراہی میں ایک وفد نے سیول میں این ایس جی اجلاس میں شرکت کی۔ذرائع کے مطابق پاکستانی وفد نے اجلاس کے سائیڈ لائن پر 25 ممالک کے نمائندگان سے ملاقات کی۔دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے اس سے قبل کہا تھا کہ کئی این ایس جی ممالک جوہری کلب میں شمولیت کے لیے این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے والے ممالک کے حوالے سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں سٹرٹیجک استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان اوربھارت کی درخواستوں پرالگ الگ غور نہیں کیا جائے گا۔

متعلقہ عنوان :