بھارت کو این ایس جی کی رکنیت دینے سے خطے میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہونے کا تاثرغلط ہے،امریکا

پیر 13 جون 2016 15:04

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔13 جون ۔2016ء) امریکا نے خبردار کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں جوہری تصادم کے سائے منڈلارہے ہیں تاہم بھارت، پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات میں بہتری سے خطے میں دیر پا امن، استحکام اور خوشحالی کے امکانات بہت حد تک بڑھ سکتے ہیں،غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ایک سینئر امریکی عہدے دار نے اس امکان کو مسترد کردیا کہ بھارت کی این ایس جی میں شمولیت سے جنوبی ایشیا کے اسٹریٹجک استحکام پر فرق پڑے گا تاہم انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ خطے میں جوہری تنازعات پیدا ہونے کا خطرہ ضرور ہے۔

امریکی عہدے دار نے مزید کہا کہ ہمیں بڑھتے ہوئے سیکورٹی خطرات پر تشویش ہے، اس کے علاوہ ایٹمی ذخائر میں اضافے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان روایتی جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ چین نے 48 رکنی این ایس جی گروپ میں ہندوستان کی شمولیت کی شدید مخالفت کی ہے جبکہ ہندوستان کی شمولیت کے مخالف نیوزی لینڈ، ترکی، جنوبی افریقا، آسٹریلیا اور دیگر ممالک کے گروپ میں سب سے اہم کردار چین کا ہی ہوگا۔

این ایس جی کا بنیادی مقصد حساس جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی پر کنٹرول رکھنا ہے یہی وجہ ہے کہ جو ممالک ہندوستان کی شمولیت کی مخالفت کررہے ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ نئی دہلی پہلے جوہری عدم پھیلاوٴ کے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط کرے۔لیکن امریکا اس حوالے سے بھارت کے لیے استثنیٰ کا خواہاں ہے، تاہم چین کا موقف ہے کہ اگر ایک ملک کو چھوٹ دی گئی تو ایسے ممالک جنہوں نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے اور این ایس جی میں شمولیت چاہتے ہیں انہیں بھی استثنیٰ دینا ہوگا۔

ایک سینئر امریکی عہدے دار نے امریکا کا موقف واضح کرتے ہوئے بتایا کہ اندر کی بات یہ ہے کہ امریکا بھارت کے ساتھ مستحکم تعلقات کا خواہاں ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ امریکا کی یہ خواہش گزشتہ ہفتے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ واشنگٹن کے دوران حقیقت میں بدل گئی، اس دوران دونوں ممالک کے درمیان کئی بڑے معاہدے بھی طے پائے،وائٹ ہاوٴس میں مودی سے 2 گھنٹے طویل ملاقات میں امریکی صدر براک اوباما نے بھارت کی این ایس جی میں شمولیت کی درخواست کی نہ صرف حمایت کی بلکہ دیگر این جی ایس ارکان پر زور دیا کہ وہ بھی رواں ماہ ہونے والے سالانہ اجلاس میں بھارت کی حمایت کریں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ جنوبی ایشیا میں تصادم کے خطرے کو کس طرح کم کیا جاسکتا ہے تو امریکی عہدے دار نے بتایا کہ بھارت، پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات میں بہتری سے خطے میں دیر پا امن، استحکام اور خوشحالی کے امکانات بہت حد تک بڑھ سکتے ہیں۔امریکی عہدے دار نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ بھارت کو این پی ٹی پر دستخط کیے بغیر این ایس جی کی رکینت دینے سے جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نہیں سمجھتے کہ بھارت کے این ایس جی میں شامل ہونے سے خطے کے اسٹریٹجک استحکام میں کوئی بڑی تبدیلی آئے گی۔کشیدگی کو روکنے کے لیے امریکی اقدامات کے حوالے سے سوال کے جواب میں مذکورہ عہدے دار نے کہا کہ ہم جوہری ہتھیار رکھنے والے تمام ممالک پر مسلسل زور دیتے آئے ہیں کہ وہ ایٹمی میزائلز کے حوالے سے تحمل کی پالیسی اپنائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری انتہائی اہم ہے، یہ دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ خطے کے لیے بھی نہایت ضروری ہے۔مذکورہ عہدے دار نے یاد دلایا کہ امریکا نے نیپال میں سارک ممالک کے اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کے درمیان ہونے والی ملاقات کا خیر مقدم کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی و معاشی تعلقات کی بہتری کے لیے سارک ممالک کے درمیان ہونے والی اس طرح کی ملاقاتوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کو عملی اشتراک سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک براہ راست مذاکرات اور تعاون شروع کریں جس کا مقصد کشیدگی میں کمی، باہمی تعاون اور خطے کا فائدہ ہونا چاہیے۔

امریکی عہدے دار نے کہا کہ ہم بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تاہم خطے میں دہشت گردی کی سرگرمیوں پر امریکا کو تشویش ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ان دہشت گرد گروپوں کے حوالے سے مستقل تشویش ہے جو پاک بھارت مذاکراتی عمل کو سبوتاڑ کرنا چاہتے ہیں۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا اوباما اور نریندر مودی کی ملاقات میں پاکستان بھی زیر بحث آیا تو مذکورہ عہدے دار نے بتایا کہ امریکا کے اس خطے کے ممالک سے سیکیورٹی تعلقات ایسے نہیں کہ جس سے ایک ملک کو فائدہ ہو اور دوسرے کو نقصان ہو۔

ان کا کہنا تھاکہ ہمارے پاکستان،بھارت اور افغانستان کے ساتھ سیکورٹی تعلقات مختلف ہیں۔امریکی عہدے دار نے پاکستان اور بھارت پر کشیدگی میں کمی کے لیے اقدامات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے پاکستان ، بھارت پر حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے اپنی سرزمین کا استعمال روک کر تعلقات میں بہتری کے لیے زیادہ بہتر کردار ادا کرسکتا ہے۔امریکی عہدے دار نے پاکستان کی اس شکایت کا براہ راست تذکرہ کرنے سے گریز کیا جس میں پاکستان نے موقف اختیار کیا تھا کہ افغانستان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو اپنی سرزمین پر خفیہ ٹھکانے قائم کرنے کی اجازت دے رکھی ہے جہاں سے وہ پاکستان پر حملے کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کا دیرینہ موقف رہا ہے کہ کسی بھی ملک کو اپنی سرزمین خطے کے دوسرے ممالک پر حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دینی چاہیے۔

متعلقہ عنوان :