محمد علی کے قبولِ اسلام سے 1960ءکی دہائی میں چلنے والی شہری حقوق کی تحریک کو تقویت ملی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 10 جون 2016 15:15

محمد علی کے قبولِ اسلام سے 1960ءکی دہائی میں چلنے والی شہری حقوق کی تحریک ..

واشنگٹن (اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10جون۔2016ء) امریکہ میں شہری حقوق کی تحریک کے ایک مقبول رہنما سی ٹی ویوین نے کہا ہے کہ مرحوم باکسر محمد علی کے قبولِ اسلام کے نتیجے میں 1960ءکی دہائی میں چلنے والی تحریک کو تقویت ملی تھی۔سی ٹی ویوین شہری حقوق کی تحریک کے دوران 'سدرن کرسچن لیڈرشپ کانفرنس' نامی افریقی امریکی تنظیم کے سربراہ تھے اور انہوں نے امریکہ میں سیاہ فام باشندوں کو یکساں حقوق دلانے کی جدوجہد کرنے والے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے ساتھ تحریک میں سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔

انہیں 2013ءمیں صدارتی تمغہ برائے حریت (میڈل آف فریڈم) سے نوازا گیا تھا جو امریکہ کا سب سے بڑا شہری اعزاز ہے۔سی ٹی ویوین نے اپنے ایک انٹرویومیں کہا کہ محمد علی کے قبولِ اسلام کے باعث شہری حقوق کی تحریک سے وابستہ افراد کی عدم امتیاز اور عدم تشدد کی پالیسی سے وابستگی میں اضافہ ہوگیا تھا۔

(جاری ہے)

محمد علی کے قبولِ اسلام اور ویتنام جنگ کے دوران فوجی سروس انجام دینے سے ان کے انکارکو اس وقت جہاں بعض حلقوں نے سراہا تھا وہیں بعض امریکیوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا۔

تاہم سی ٹی ویوین کا کہنا ہے کہ شہری حقوق کی تحریک کے دوران محمد علی کے ان اقدامات نے تحریک کو جلا بخشی تھی اور اس کے مقاصد مزید واضح کرنے میں مدد ملی تھی۔ان کے مطابق شہری حقوق کی تحریک دراصل اپنی نہاد میں ایک مذہبی تحریک تھی جس کے بیشتر رہنما بشمول مارٹن لوتھر کنگ جونیئر مسیحی پادری تھے۔ ایسے میں محمد علی کا اسلام قبول کرنا اور اس پر ثابت قدم رہنما ویوین کے بقول اس تحریک کا ایک اہم باب ہے جس پر اس وقت کے تحریک کے رہنماﺅں کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔

سی ٹی ویوین کہتے ہیں محمد علی اپنے عقیدے کا کھل کر اظہار کیا کرتے تھے جو درحقیقت شہری حقوق کی تحریک کے لیے معاون ثابت ہوا کیوں کہ اس کے نتیجے میں لوگوں کی توجہ روحانیت اور زندگی میں اس کی اہمیت کی جانب مبذول ہوئی۔محمد علی نے 1964ءمیں عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن شپ جیتنے کے کچھ ہی عرصے بعد 'نیشن آف اسلام' میں شامل ہونے کا اعلان کا اعلان کیا تھا۔

یہ افریقی نڑاد امریکیوں کا ایک مذہبی گروہ تھا جس کی بنیاد 1930 میں مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں رکھی گئی تھی۔ بعد ازاں 1970 کی دہائی میں محمد علی نے سنی اسلام قبول کرلیا تھا۔جنگ کے خلاف ان کے موقف نے انہیں ایک عالمی ہیرو بنادیا تھا۔ لیکن امریکی فوج میں شمولیت سے انکار کی پاداش میں انہیں گرفتاری، مقدمے بازی اور پھر تمام عالمی اعزازات سے محرومی اور چار سال تک باکسنگ کے مقابلوں میں شرکت پر پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔