جنگ کے دوران بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے بلیک لسٹ سے یمن میں سعودی اتحاد کو عارضی طور پر نکالنے کا 'تکلیف دہ اور مشکل' فیصلہ اتحادیوں کی جانب سے دباو کی وجہ سے کیا۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کا انکشاف

سعودی عرب کوبلیک لسٹ میں شامل کیا جانا غیر منصفانہ عمل ہے اور اس کا یقیناً سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات پر اثر پڑے گا‘سعودی عرب نے لسٹ سے نام نکالنے کے لیے کوئی دھمکی نہیں دی۔اقوام متحدہ میں سعودی سفیر کا بیان

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 10 جون 2016 14:03

جنگ کے دوران بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے بلیک لسٹ سے یمن میں ..

نیویارک(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10جون۔2016ء) اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے انکشاف کیا ہے کہ جنگ کے دوران بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے بلیک لسٹ سے یمن میں سعودی اتحاد کو عارضی طور پر نکالنے کا 'تکلیف دہ اور مشکل' فیصلہ انھوں نے اتحادیوں کی جانب سے دباو کی وجہ سے کیا۔امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق بان کی مون کا کہنا تھا کہ عالمی ادارے کو دھمکی دی گئی تھی کہ اگر سعودی اتحاد کو بلیک لسٹ سے نہ نکالا گیا تو بہت سے پروگراموں کی فنڈنگ روک دی جائے گی۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے میڈیا کو بتایا کہ انھیں اس حقیقی پہلو کو بھی مدنظر رکھنا تھا کہ فلسطین، جنوبی سوڈان، شام، یمن اور دیگر ممالک میں موجود لاکھوں بچے اقوام متحدہ کے پروگراموں کی فنڈنگ بند ہونے سے شدید متاثر ہوں گے۔

(جاری ہے)

بان کی مون کا یہ بیان انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے تنظیموں کی جانب سے عالمی ادارے کے مذکورہ فیصلے پر شدید ردعمل کے بعد سامنے آیا، جن میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل پر سعودی عرب کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا کا حمایت یافتہ سعودی اتحاد بچوں،سکولوں اور ہسپتالوں پر حملوں میں ملوث ہے۔یاد رہے کہ چند روز قبل اقوام متحدہ نے یمن میں حوثی باغیوں سے لڑنے والے سعودی اتحاد کا نام اس بلیک لسٹ سے نکال دیا تھا، جس میں جنگ کے دوران بچوں کے حقوق پامال کرنے والے ممالک شامل ہیں۔رپورٹس کے مطابق عالمی ادارے نے یہ فیصلہ سعودی عرب کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج کے بعد کیا تھا۔

سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور دیگر ممالک کے تحفظات کے بعد ان کا ادارہ اس لسٹ میں موجود ’دہشت گرد اور انتہا پسند گروپوں‘ میں فرق کرنے کے لیے بہتر راستہ دیکھ رہا ہے۔دوسری جانب اقوامِ متحدہ میں سعودی عرب کے سفیر عبداللہ الموالعمی نے اپنے میڈیا بیان میں کہا ہے کہ ان کا ملک سمجھتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی بلیک لسٹ سے سعودی اتحاد کا نام خارج کیا جانا حتمی اور غیر مشروط عمل ہے۔

انھوں نے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ سعودی عرب نے بلیک لسٹ سے نام کے اخراج کے لیے کوئی دھمکی دی تھی تاہم انھوں نے کہا کہ اس قسم کی لسٹ میں انھیں شامل کیا جانا غیر منصفانہ عمل ہے اور اس کا یقیناً سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات پر اثر پڑے گا۔سعودی سفیر نے اس بات کی تردید کی کہ ان کے ملک نے اقوامِ متحدہ کی ایجنسی کو فلسطینی مہاجرین کے لیے دیے جانے والے فنڈز روکنے کی بات کی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ بات حیران کن نہیں کہ اگر دسیوں ممالک اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو یہ کہیں کہ سعودی اتحاد کو اس لسٹ میں شامل کیا جانا نامنظور ہے۔