وہ 6 سازشی نظریات جو درست ثابت ہوئے

Ameen Akbar امین اکبر جمعرات 9 جون 2016 06:54

وہ 6 سازشی نظریات جو درست ثابت ہوئے

بہت کم سازشی نظریات ایسے ہوتے ہیں جو کبھی درست ثابت ہوئے ہوں ۔عام طور پر سازشی نظریات بظاہر بعید از قیاس ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا درست ہونا مشکل لگتا ہے۔ ذیل میں چند ایسے سازشی نظریات دئیے جا رہے ہیں، جو درست ثابت ہوئے تھے۔

ایم کے الٹرا
ایم کے الٹرا سی آئی اے کا وہ خفیہ پراجیکٹ تھا، جس کا مقصد اپنی ہی عوام کا دماغ کنٹرول کرنا تھا۔

اس پراجیکٹ کےتحت سی آئی اے نے درجنوں خطرناک تجربات کیے۔ اس پراجیکٹ کے تحت 86 یونیورسٹیوں، 12 ہسپتالوں اور 3 جیلوں کے اندر تجربات کیے گئے۔ کچھ خطرناک تجربات جان لیوا بیماریوں میں مبتلا افراد پر بھی کیے گئے۔ اس پراجیکٹ کے تحت کیے گئے تجربات میں دو افراد کی جانیں بھی چلی گئیں۔اس پراجیکٹ کا مقصد دوران تفتیش مجرموں سے پوچھ گچھ کرنے کے لیے اُن کا دماغ کنٹرول کرنا بھی تھا۔

(جاری ہے)


1970 کی دہائی کے آخر میں سینٹ نے اس پر تحقیقات کا آغاز کیا مگر تب تک سی آئی اے اس پراجیکٹ کے بہت سے کاغذی ثبوت ضائع کر چکی تھی۔

فروٹ مشین
آج کل تو مغربی ممالک میں ہم جنس پرستوں کو کھل کر شادی کرنے کی اجازت بھی ہے تاہم 60 کی دہائی اسے سیکورٹی رسک سمجھا جاتا تھا۔اسی وجہ سے کینیڈین حکومت نے ہم جنس پرستوں کو فوج، پولیس اور شہری اداروں سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔

ہم جنس پرستوں کا کھوج نکالنے کے لیے ایک خصوصی ٹیم بنائی گئی، جس نے خفیہ طور پر کلبوں کا دورہ کیا مگر یہ اقدام ناکافی تھا۔ اس کے بعد انہوں نے فروٹ مشین کے نام سے ایک ڈیوائس بنائی۔ بظاہر تو ذہنی دباؤ کےٹسٹ کا بتا کر وہ ٹیم ہم جنس پرست لوگوں کو تلاش کرنے لگی۔ ٹسٹ کے دوران یہ ٹیم لوگوں کو عریاں تصاویر دکھاتی ، ان میں ہی ہم جنس پرستوں کی تصاویر بھی شامل ہوتیں۔

جس شخص کا ٹسٹ لیا جا رہا ہوتا، اس کے جسم سے آلات نصب ہوتے۔ تصویر دیکھنے پر اس کے ردعمل کا جائزہ لیا جاتا اور اس طرح پتہ چلایا جاتا کہ وہ ہم جنس پرست ہے یا نہیں۔فروٹ مشین کے باعث 400افراد کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے۔

ٹسکیگی سٹڈی
1932سے 1972 کے دوران یہ تجربات صرف سیاہ فام افراد پر کیے گئے۔ اس مطالعے کا مقصد سیاہ فام افراد میں ناقابل علاج مرض آتشک کا مطالعہ کرنا تھا۔

مطالعہ کرنے والوں نے 400 کمزور افریقن امریکن افراد کو اس مرض میں مبتلا کیا اور ان کا علاج کیے بغیرجائزہ لیتے رہے۔ان سیاہ فام افراد کو کبھی نہیں بتایا جا تا تھا کہ انہیں یہ مرض ہے۔ انہیں بس اتنا کہا جاتا کہ اُن کا خون خراب ہے، جس کے علاج کے لیے انہیں عام سی اسپرین جیسی ادویات دیں جاتیں۔یہ مطالعہ اس وقت تک جاری رہا جب تک پنسلین اس کا معیاری علاج نہ بن گیا۔

1970 کی دہائی میں عوام کو اس مطالعے کا پتہ چلا، عوامی غم و غصے کے بعد یہ مطالعہ ختم کر دیا گیا۔1997 میں بل کلنٹن نے باقاعدہ طور پر ان تجربات کا اعتراف کیا۔

زہریلی شراب کی فراہمی
1920سے 1933 کے درمیان امریکی حکومت نے شراب کی تیاری اور اس کی فروخت پر مکمل پابندی لگا دی، جس کے نتیجے میں عوام غیر قانونی طور پر شراب حاصل کرنے لگے، خفیہ شراب خانے کھل کیے یا لوگوں نے گھروں میں شراب خانے بنالیے۔

لوگوں کو شراب سے دور کرنے کے لیے امریکی حکومت نے مارکیٹ میں موجود شراب میں زہریلی ادویات شامل کر دیں ،جس سے لوگ مرنے لگے۔ اندازہ ہے کہ زہریلی شراب پینے سے مرنے والوں ک تعداد 10ہزار تک ہو گئی تھی مگر لوگ پھر بھی شراب پینے سے باز نہیں آتے تھے۔زہریلی شراب پینے سے ہزاروں لوگ معذور اورنابینا بھی ہوگئے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت نے جان بوجھ کر ناپسندیدہ شہریوں سے نجات پانے کے لیے شراب کو زہریلا بنایا تھا۔



آپریشن پیپر کلپ
اس آپریشن میں سی آئی اے نے نازیوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سی آئی اے نے جرمنی کےایک کیمپ میں نازی سائنسدانوں کے ساتھ مل کر دماغ کو کنٹرول کرنے والی ادویات بنائیں۔ ان ادویات کو ورسی قیدیوں پر استعمال کیا جاناتھا۔

این ایس اے اور عالمی نگرانی کا نظام
2013 میں ایڈورڈ سنوڈن نے واشنگٹن پوسٹ اور گارجین کو بتایا کہ کس طرح امریکی حکومت اپنے شہریوں اور دنیا بھر کی حکومتوں کی جاسوسی کرتی ہے۔شروع میں خیال کیا گیا کہ حکومت صرف امریکی شہریوں کی جاسوسی کرتی رہی ہے مگر جلد ہی پتہ چلا کہ امریکی اپنے اتحادیوں سمیت دنیا بھر کے رہنماؤں کی جاسوسی بھی کرتی رہی ہے۔