22ویں آئینی ترمیم جلد بازی میں کی گئی،ہمیں ربڑ سٹمپ نہ سمجھا جائے،آئینی ترمیم کے بل کا مسودہ ناقص ،بل تیار کرنے وا لے غیر پروفیشنل تھے،بل کے مسودے کو جامع بنایا جائے ،سینیٹرز کو خاموش کروا کر بل منظور کرانے کی کوشش کی جار ہی ہے جو قبول نہیں ،غلطیوں کے باوجود قومی اسمبلی اس بل کو پاس کرچکی، ملک میں دھرنا یا احتجاج ہوتو ہمیں پارلیمنٹ یاد آجاتا ہے ،مگر جب 21ویں اور 22ویں ترمیم ہو تو نظریہ ضرورت سامنے آجاتاہے ،آئینی مجبوری کے تحت 22ویں ترمیم کو منظور کر رہے ہیں الیکشن کمیشن کے ممبران کی مدت ملازمت 10جون کو ختم ہوجائے گی ،بل پاس نہ کیا تو پھر وہی پرانے طریقہ کار کے تحت الیکشن کمیشن ممبران تعینات ہو جائیں گے

سینٹ میں اپوزیشن ارکان کی اعتزاز احسن ، فرحت اﷲ بابر ، بابر اعوان ، سراج الحق سینیٹر عثمان مگسی کی 22ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر شدید تنقید

جمعرات 2 جون 2016 23:14

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔02 جون۔2016ء) سینٹ میں اپوزیشن ارکان نے22ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ 22ویں آئینی ترمیم جلد بازی میں کی گئی،ہمیں ربڑ سٹمپ نہ سمجھا جائے،آیئنی ترمیم کے بل کا مسودہ ناقص ،بل تیار کرنے وا لے غیر پروفیشنل تھے،بل کے مسودے کو جامع بنایا جائے ،سینیٹرز کو خاموش کروا کر بل منظور کرانے کی کوشش کی جار ہی ہے جو قبول نئی ، بل کی لینگویج تک غلط ہے، آج ہر طرف نظریہ ضرورت نظر آرہاہے،غلطیوں کے باوجود قومی اسمبلی اس بل کو پاس کرچکی، ملک میں دھرنا یا احتجاج ہوتو ہمیں پارلیمنٹ یاد آجاتا ہے ،مگر جب 21ویں اور 22ویں ترمیم ہو تو نظریہ ضرورت سامنے آجاتاہے،آج ہم نظریہ ضرورت کا جنازہ اٹھانے کی بجائے نظریہ ضرورت کی لاشوں کے ڈھیر لگارہے ہیں،آئینی مجبوری کے تحت 22ویں ترمیم کا مں طور کر رہے ہیں ،کیونکہ الیکشن کمیشن کے ممبران کی مدت ملازمت 10جون کو ختم ہوجائے گی ،بل پاس نہ کیا تو پھر وہی پرانے طریقہ کار کے تحت الیکشن کمیشن ممبران تعینات ہو جائیں گے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہا ر جمعرات کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر سینیٹر اعتزاز احسن ، سینیٹر فرحت اﷲ بابر ، سینیٹر بابر اعوان ، سینیٹرسراج الحق، سینیٹر عثمان مگسی و دیگر نے کیا۔قبل ازیں جمعرات کو سینٹ اجلاس میں وفاقی وزیرقانون زاہد حامد نے پارلیمانی انتخابی اصلاحات کمیٹی کی سفارشات پر تیار کردہ 22ویں آئینی ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کیا،جس پر اازاد سینیٹر محسن خان لغاری نے کہا کہ 19مئی کو قومی اسمبلی میں 22ویں آئینی ترمیم بل پیش ہوا جس کے بعد ہم کو اس بل کو دیکھنے کا موقع ملا،پارلیمانی انتخابی اصلاحات کمیٹی گذشتہ 1 سال سے کام کر رہی ہے،مجھے اس بل میں کچھ خامیاں محسوس ہوئیں،ہم آئین میں ترمیم کرنے جارہے ہیں ج اس سے پہلے ہمیں بل میں موجود تمام خامیوں کو دور کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ایوان کا استعمال کم ہوتا جارہاہے، آل پارٹیز کانفرنسسیں ہوتی ہیں پھر ان کے فیصلے ایوانوں میں پیش کردیئے جاتے ہیں اور ہم ان کو آنکھیں بند کر کے قبول کرلیتے ہیں،قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ بل میں بی پی ایس(بیسک پے سکیل) استعمال کیا گیا ہے،مگر مستقبل میں جاکر اس کو تبدیل کیا جاتاہے تو ہمیں پھر اس میں تبدیلی کرنی پڑے گی،بل میں الیکشن کمیشن ممبران کی عمر 68سال مقرر کی گئی ہے،جس پر ہمیں اعتراض ہے،ہم مجبوری کے تحت اس بل کو منظورکر رہے ہیں کیونکہ 10جون کو الیکشن کمیشن کے ممبران کی مدت ملازمت ختم ہورہی ہے اگر اس بل کو پاس نہ کیا تو یہ واپس اسمبلی میں جائے گا اور اسمبلی میں بجٹ سیکشن میں قانون سازی نہیں ہوسکتی اور ہمیں دوبارہ الیکشن کمیشن کے پرانے نظام کے مطابق ممبران رکھنے پڑیں گے۔

سینیٹر عثمان مگسی نے کہا کہ آئینی مجبوری کے تحت اسی بل کو منظور کروانے کیلئے ووٹ دے رہے ہیں،بل کی ڈرافٹنگ میں بہت نقائص ہیں۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ بہتری کی طرف سفر جاری ہے،مسئلہ یہ نہیں کہ بیورو کریٹ یا جج آئیں گے،مسئلہ ان کے چناؤ کا ہے ان کے چناؤ کیلئے حکومت اور اپوزیشن کے یکساں موقع دیا جانا چاہیے۔سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ جو بل قومی اسمبلی میں پاس ہوا،ضروری نہیں کہ سینیٹ میں بل اسی طرح پاس ہو،22ویں آئینی ترمیم بل میں جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ ٹھیک نہیں،حکومت اس سے پہلے بھی بہت سی یقین دہانیاں کرواچکی مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔

سینیٹر بابر اعوان نے کہا کہ آجچیئرمین سینٹ آرٹیکل 63کے تحت اپنے آدملے آنسو مجھے دے دیں،آج ہر طرف نظریہ ضرورت نظر آرہاہے،غلطیوں کے باوجود قومی اسمبلی اس بل کو پاس کرچکی،ہم میڈیا پر بیٹھ کر آئین پاکستان کے پاسبان کی بات کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں دھرنا یا احتجاج ہوتو ہمیں پارلیمنٹ ہاؤس میں آجانا چاہیے،مگر جب 21ویں ترمیم ہوئی تو نظریہ ضرورت سامنے آجاتاہے،آج ہم نظریہ ضرورت کا جنازہ اٹھانے کی بجائے نظریہ ضرورت کی لاشوں کے ڈھیر لگارہے ہیں،مجھے آج سمجھ آئی کہ چیئرمین سینٹ 21ویں ترمیم کے وقت کیوں روئے تھے،بل کی زبان میں بنیادی غلطیاں میں حکومت کی غلطی کا نقصان آئین کو نہیں ہونا چاہیے،اگرایوان میں زیریں غلطی کرے تو ضروری نہیں ایوان بالا ان کی غلطی کو نظر انداز کرددے،ہم یہاں غلط روایات نہ ڈالیں،اگر ایوان کو ممبران کی مدت ملازمت ختم ہورہی ہے تو اس میں ہماری کیا غلطی ہے۔

سینیٹر عثمان کاکڑنے کہاکہ حکومت سینیٹ کو ڈی گریٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔سینیٹر سعید غنی نے کا کہ حکومت نے اتنی ہی اصلاحات کا نام تاخیر سے شروع کیا میں بل اس پارلیمانی کمیٹی میں شامل تھا میں نے یہ بل ترتیب دیا۔سینیٹر شاہی سعید نے کہا کہ جب جب یہاں بیٹھے مان رہے ہیں کہ بل میں غلطیاں ہیں تو ہم کیوں اس کو پاس کر رہے ہیں،میں ایسی کسی آئینی ترمیم میں شامل نہیں ہوں جس میں غلطیاں ہوں،اس لئے میں اس پر ایوان سے واک آؤٹ کرتا ہوں۔

سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ اگر ایوان الا کو اہمیت نہیں دینی تو اس کو ختم کردیں یا اس کو ایوان زیریں بنادیں۔ اس موقع پر وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہاکہ مجھے آج بہت افسوس ہو ا جس کمیٹی نے یہ بل تیار کیا اس میں تمام جماعتوں کی نمائندگی تھی‘ اس میں 10 سینیٹرز بھی شامل تھے۔ کمیٹی نے سینٹ میں 17 مئی کو اس حوالے سے رپورٹ پیش کر دی تھی مگر افسوس کسی نے اس کو پڑھا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی نے 18 اور سب کمیٹی کے 56 اجلاس ہوئے۔ کمیٹی میں تمام ممبران کو کہا گیا تھا کہ 22 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے اپنی پارٹی کو آگاہ کریں۔ اور اگر کسی کو کچھ غلط لگے تو ہمیں بتائے ہم اس میں تبدیلی کرنے کو تیار ہیں مگر اس وقت کسی نے اس پر بات نہیں کی۔ انہوں نے کہاکہ یہ کہنا غلط ہے کہ قومی اسمبلی سینٹ کے بھیجے بلوں کو دیکھتی نہیں ۔

میں نے خود سینٹ کے 4 ترمیمی بل قومی اسمبلی سے پاس کر وائے مجھے افسوس ہے کہ جو ممبران آج یہاں بول رہے ہیں وہ اس کمیٹی کے رکن تھے جنہوں نے یہ بل بنایا۔ میں یہاں 2 گھنٹے کی تقریر کر سکتا ہوں اور ایک ایک سوال کا جواب بھی دے سکتا ہوں۔ اس بل میں 2 اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں اور اتفاق رائے سے کی گئیں۔ یہ بل حکومت یا مسلم لیگ(ن) کا نہیں تمام جماعتوں کا ہے۔

بل میں جن خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہم مل جل کر وہ دور کرنے کو تیار ہیں۔یہ الیکٹرول ریفارمز کی ابتداء ہے الیکٹرو ریفارمز کے فل پیکج میں یہ خامیاں دور کردیں گے۔ وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ پارلیمانی انتخابابی اصلاحات کی کمیٹی میں تمام جماعتوں کی نمائندگی تھی یہ بل حکومت یا کسی پارٹی کا نہیں تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور اتفاق رائے سے بنایا گیا۔ یہ الیکٹرول ریفارمز کا ابتدائی پیکج ہے حتمی نہیں اس کے بعد بھی اس حوالے سے اصلاحات کی جائیں گی جس میں ان خامیوں کو دور کر دیا جائے گا۔