اورنج ٹرین کے راستے میں 12تاریخی عمارتوں کے ارد گرد تعمیراتی کام روکنے کے حوالے سے جاری حکم امتناعی میں توسیع

تاریخی عمارتوں کی حیثیت کا جائزہ لئے بغیر ایک این او سی کس قانون کے تحت جاری کیا گیا‘ لاہور ہائیکورٹ کے ریمارکس

جمعرات 2 جون 2016 22:19

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔02 جون۔2016ء) لاہور ہائیکورٹ اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کے راستے میں آنے والی 12تاریخی عمارتوں کے ارد گرد تعمیراتی کام روکنے کے حوالے سے جاری حکم امتناعی میں سات جون تک توسیع کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ تاریخی عمارتوں کی حیثیت کا جائزہ لئے بغیر ایک این او سی کس قانون کے تحت جاری کیا گیا،کیا حکومتی این او سی کو جواز بنا کر شالا مار باغ گرانے کی اجازت دے دی جائے۔

گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزاروں کی جاجب سے وکیل اظہرصدیق ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت پنجاب نے اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کے لئے ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے اعشاریہ 75فیصد شرح سود پر قرض لینے کی بجائے چینی ایگزم بینک سے چھ فیصد شرح سود کا معاہدہ کیا۔

(جاری ہے)

چینی بینک کے علاوہ حکومت نے کسی دوسرے بینک سے قرض کی فراہمی کے حوالے سے بات چیت تک کرنا گوارا نہیں کیا۔ جبکہ معاہدے کے تحت چینی ایگزم بینک نے دو سو ارب کے منصوبے کے لئے محض ایک سو باسٹھ ارب کے قرضے کی فراہمی پر آمادگی کا اظہار کیا مگر حکومت اٹھائیس ارب کی اضافی رقم کہاں سے لائے گی اس حوالے سے تفصیلات کو ریکارڈ پر نہیں لایا جا رہا۔

جس پر فاضل عدالت نے وفاقی اور پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔ دوران سماعت عدالت کے رو بروایڈووکیٹ جنرل پنجاب شکیل الرحمن خان نے اورنج ٹرین منصوبے کے ماحولیاتی اثرات سے متعلق اپنے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ ایل ڈی اے نے منصوبے پر سروسز کی مدمیں ایک فیصد رقم کی وصولی کا فیصلہ واپس لے لیا ہے جس سے منصوبے میں شامل 1ارب 75کروڑ سے زائد رقم مائنس ہو جائے گی۔

جس پر عدالت نے ریمارکس دئیے کہ نئے تعینات ہونے والے ڈی جی آثار قدیمہ نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے تین دن میں ہی تاریخی عمارتوں کی حیثیت کا مرحلہ وار جائزہ لئے بغیر ایک ہی نوعیت کا این او سی کیسے جاری کر دیا۔ عدالت کو بتایا جائے کہ کیا حکومتی این او سی کو جواز بنا کر شالا مار باغ گرانے کی اجازت دے دی جائے۔این او سی جاری کرنے کے بعد دستاویزات کو منظر عام پر لایا گیا۔

این او سی جاری کرنے سے قبل ایکسرسائز کیوں مکمل نہیں کی گئی۔ جس پر فاضل دالت نے منصوبے کے راستے میں آنے والی 12تاریخی عمارتوں کے ارد گرد تعمیراتی کام روکنے کے حوالے سے جاری حکم امتناعی میں توسیع کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت سات جون تک ملتوی کر دی اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو مزید دلائل کے لئے طلب کر لیا۔