امریکی ڈرون حملے پراحتجاج نہ کرنے کا تاثر غلط ہے ،ہم نے مذمت اور امریکی سفیر سے سخت احتجاج کیا ، ولی محمد کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بارے وزارت داخلہ سے معلومات لیں ، جائے وقوعہ سے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ ملنے بارے وزیر داخلہ بتائیں گے، وزارت داخلہ تحقیقات کر رہی ہے ،ہمیشہ ڈرون حملوں کا معاملہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اٹھایا،نوشکی ڈرون حملے کا اثر افغان امن عمل اور پاک امریکہ تعلقات پر پڑا،سرحدی صورتحال کی بہتری کیلئے بارڈر مینجمنٹ اور افغان حکومت کا تعاون ضروری ہے ،ہم عدم مداخلت کی پالیسی پر گامزن ہیں کوئی ملک دوسرے ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا،افغانستان میں امن عمل کے لیے ہماری کوششیں جاری رکھیں گے

مشیر خارجہ سرتاج عزیزکا سینیٹ میں تحاریک التواء پر بحث سمیٹتے ہوئے خطاب ایف 16 کے معاملے پر امریکی سینیٹ نے ردعمل ظاہر کیا ، پاکستان کی سینیٹ کو بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ،ڈرون حملوں کا معاملہ ایف سولہ سے کہیں زیادہ سنگین ہے ، امریکی محکمہ خارجہ کابیان تشویش ناک ہے، چیئرمین سینیٹ کی رولنگ

جمعرات 2 جون 2016 20:01

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔02 جون۔2016ء) مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہاہے کہ یہ تاثر ہے کہ وزارت خارجہ نے بلوچستان میں کئے گئے امریکی ڈرون حملے کے حوالے سے کوئی احتجاج نہیں کیا ‘ مگر ہم نے اگلے ہی روز اس کی مذمت بھی کی اور احتجاج کیا اور پھر امریکی سفیر کو بلا کر ان سے سخت احتجاج کیا گیا اور پھر وزارت داخلہ سے اس بارے میں معلومات لی گئیں کہ ولی محمد کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کیسے بنا۔

موجودہ حکومت نے ڈرون حملوں کا مسئلہ امریکہ اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اٹھایااس ڈرون حملے کا معاملہ بھی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل میں اٹھائیں گے ،نوشکی کے ڈرون حملے کا اثر افغان امن عمل اور پاک امریکہ تعلقات پر پڑا،سرحدی صورتحال کی بہتری کیلئے بارڈر مینجمنٹ اور افغان حکومت کا تعاون ضروری ہے ہم عدم مداخلت کی پالیسی پر گامزن ہیں کوئی ملک دوسرے ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا،افغانستان میں امن عمل کے لیے ہماری کوششیں جاری رکھیں گے اور افغانستان میں امن کے بغیر پاکستان میں امن نہیں ہوسکتا،پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کیسے ملا وزیر داخلہ بتائیں گے وزارت داخلہ اسکی تحقیقات کر رہی ہے جبکہ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ ایف 16 کے معاملے پر امریکی سینیٹ نے ردعمل ظاہر کیا ، پاکستان کی سینیٹ کو بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

ڈرون حملے ایف سولہ سے کہیں زیادہ سنگین اور اس بھی زیادہ تشویش ناک امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا بیان ہے کہ ڈرون حملے جاری رہیں گے ،یہ معمولی نہیں یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ جمعرات کو ایوان بالا کا اجلاس چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی صدارت میں ہوا اجلاس میں سینیٹر فرحت اﷲ بابر ،سینیٹر گیان چند ،سینیٹر سعیدالحسن مندوخیل اور سینیٹر سراج الحق و دیگر کی یکجا کی گئی تحاریک التواء پر بحث سمیٹتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ وزارت خارجہ نے ڈرون حملے کے حوالے سے کوئی احتجاج نہیں کیا ‘ مگر ہم نے اگلے ہی روز اس کی مذمت بھی کی اور احتجاج کیا اور پھر امریکی سفیر کو بلا کر ان سے سخت احتجاج کیا گیا اور پھر وزارت داخلہ سے اس بارے میں معلومات لی گئیں کہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کیسے بنا۔

ڈرون حملوں کے حوالے سے ہماری حکومت نے پالیسی بنائی ہے اور اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو موجودہ حکومت لے گئی او ر موجودہ حکومت کے دور میں ڈرون حملوں میں کمی واقع ہوئی ‘ 2015ء اور 2016ء میں 14 حملے ہوئے جبکہ اس سے 2011 میں 64 اور 2013ء میں 48 حملے ہوئے تھے۔ وزارت داخلہ نے ملا اختر منصور کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کے حوالے سے اپنے ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے او ر ملوث افسران کے خلاف کارروائی کا بھی عندیہ دیا ہے۔

افغان امن مذاکرات کو امریکہ کی جانب سے سبوتاژ کیا جا رہا ہے اور مذاکرات کے عمل کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ افغانستان میں امن کیلئے مذاکرات ضروری ہیں او راس ڈرون حملے سے افغانستان کے امن عمل کو بھی خطرہ لاحق ہو چکا ہے اور سرحدوں پر نقل و حمل کو بھی چیک کیا جا رہا ہے او ر افغان حکومت سے بھی اس ضمن میں تعاون مانگا ہے۔ پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کو چیلنج کرنے والوں سے سختی سے کی جائے گی اور برابری کی بنیاد پر تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں ۔

چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ امریکی سینٹ نے جس طرح ایف 16 کے مسئلہ پر ردعمل دکھا رہی ہے پاکستان کی سینٹ کو بھی اس پر نظر رکھنی چاہیے۔ اور ایف 16 مسئلہ پر سینٹ کی دفاع اور خارجہ کمیٹی کو ذمہ داری لگائی تھی لیکن اب پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ فرحت اﷲ بابر نے کہاکہ ملا منصور کی ہلاکت کے بعد جو صورتحال سامنے آئی ہے وہ قابل غور ہے۔

ملا منصور کی ہلاکت کے بعد ریاست او راس کے ادارے مفلوج ہو گئے ۔ متضاد بیانات سامنے آ رہے تھے۔ وزارت خارجہ خاموش تھی اور وزارت داخلہ پالیسی بیان دے رہی تھی۔ اداروں کی جانب سے کوئی ٹویٹ بھی نہیں آیا۔ اس دوران طالبان نے اپنا نیا لیڈر چن لیا پھر پاکستان کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ وہ مارا گیا ہے۔ یہ بھی صورتحال سامنے آئی کہ ملا منصور کو جعلی شناختی کارڈ جاری کیا گیا تھا۔

وزارت داخلہ نے اعتراف کیا کہ کیا اور کہا کہ اور لوگوں کو بھی ایسے کارڈ دئیے گئے ہیں اور پچھلی حکومت کا بھی کہ اگیا کہ ایسے کارڈ جاری کئے گئے۔ ایک تضا دتھا ا س لئے کہتے تھے کہ طالبان ہمارے کنٹرول میں نہیں لیکن شناختی کارڈ دیا گیا اور کہا گیا کہ ملا منصور امن کا داعی تھا۔ حکومت کہتی ہے کہ امریکہ نے ڈرون حملے کر کے پاکستان کی سالمیت کی خلاف ورزی کی ہے اور شناختی کارڈ پچھلی حکومت کی کرپشن کی وجہ سے دیا گیا ہے۔

شناختی کارڈ دینے کے حولے سے مشیر خارجہ بتائیں کہ ریاست ملوث ہے کہ نہیں۔ ڈرون حملے کے بعد بین الاقوامی دنیا میں تنہائی بڑھ رہی ہے۔ خارجہ پالیسی کے اہم پہلوؤں پر تضاد پایا جاتا ہے ۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہاکہ ملا اختر منصور کی ہلاکت کا واقعہ پاکستان کی سلامتی اور وقار کے منافی ہے۔ امریکہ کے خلاف جو اظہار کی جرات کرتا ہے امریکہ کا ٹارگٹ بن جاتا ہے۔

آج امریکہ دنیا میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔ میری دعا ہے کہ امریکہ ہم پر پابندیاں لگا دے اور ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات برابری کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ امریکہ دنیا میں امن کا داعی بن کر دہشت پھیلا رہا ہے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہاکہ ملا منصور کو پاکستان میں کیوں قتل کیا گیا پاکستان کو واضح کرنا چاہیے کہ پاکستان کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

حکومت وزیر خارجہ لگائے اور خارجہ پالیسی موثر انداز میں چلائے۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہاکہ ڈرون حملے کے ذریعے پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کو چیلنج کیا گیا محض احتجاج سے کام نہیں چلے گا اور پاکستان کو اپنی پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ مئی 2011ء میں جب طالبان سے مذاکرات کا دور شروع کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تو اس وقت اسامہ بن لادن کیخلاف ایبٹ آباد میں آپریشن کیا گیا اور مئی 2016ء میں جب ایک مرتبہ پھر مذاکرات شروع ہونے تھے اور کچھ دن قبل ہی ملا اختر منصور کا واقعہ پیش آگیا۔

گاڑی جل کر خاکستر ہو گئی مگر پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بچ گیا ۔ امریکہ سے ایف 16 طیاروں کا حصول ابھی تک ممکن نہیں ہوا اور خطے میں امریکہ کا رجحان بھارت کی طرف بڑھ رہا ہے اور بھارت پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے درخواستیں دے رہا ہے جو باعث تشویش ہے۔ وکی لیکس کے مطابق پاکستان میں عوامی طور پر تو مذمت ہوتی ہے مگر نجی طور پر ڈرون حملوں کی حمایت کی جاتی ہے اور انہیں اچھا گردانا جاتا ہے۔

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے درمیان ہمیں آج تک یہ نہیں پتہ چلا کہ وہ ہمارا دوست ہے یا دشمن؟۔ صدر پاکستان کی تقریر میں ڈرون حملوں کا ذکر تک نہیں آیا مگر آرمی چیف نے چائے کی میز پر کھل کر اس حوالے سے بات کی ۔ سینیٹر عبدالقیوم نے کہاکہ ہمارے بارڈر کے علاقے میں آزادانہ نقل و حمل اور افغان مہاجرین سمیت نادرا کی کارکردگی کے حوالے سے ہمیں ملک کے اندرونی تحفظ اور دیگر ممالک کے ساتھ خارجہ پالیسی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر کے اس کی خود مختاری کو چیلنج کیا جائے۔

اس کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی۔ سینیٹر جان کینتھ ولیم نے کہا کہ جب بھی افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع کیا جاتا ہے عین اسی وقت ان مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا جاتا ہے۔ امریکہ کی جانب سے ہر مرتبہ ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ عوام کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور ہے کہ ملا منصور پاکستان کیسے پہنچا۔ سینٹر حافظ حمد اﷲ نے کہا کہ نوشکی میں ملا اختر منصور کی شہادت ہمارے لئے باعث تشویش ہے اس حملے سے ہمیں اپنے ملک پر مرتب ہونے والے اثرات کو بھی دیکھنا ہو گا۔

امریکہ پے درپے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے اور پاکستان نے اس معاملہ پر چپ سادھ لی ہے۔ مذاکرات کو بار بار سبوتاژ کرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ پاکستان سمیت افغانستان اور جنوبی ایشیاء میں بدامنی پھیلانا چاہتا ہے اور ہماری وزارت خارجہ نے کبھی اس پر احتجاج تک نہیں کیا۔ پاکستان میں حکومت بنانے کیلئے ایک بڑے پینٹاگون امریکہ اور چھوٹے پینٹاگون پنڈی والے اور آبپارہ والوں کی مرضی درکار ہوتی ہے۔

ہماری ریاست کی خارجہ پالیسی وہاں بنائی جاتی ہے جہاں ہم اگر نام لیں تو بھی مجرم ہیں اور اگر نام نہ لیں تو بھی مجرم ہیں ۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہاکہ امر یکہ صدر اوبامہ کی تقریر کے حوالے سے سخت تشویش پائی جاتی ہے کہ جہاں خطرہ محسوس ہو گا وہیں ڈرون حملہ ہو گا