سینٹ نے 22ویں ترمیمی بل کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی

بل کے حق میں 71 ارکان نے وو ٹ دیا ٗمخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا کمیٹی میں تمام کام اتفاق رائے سے ہوا‘ ہم کوئی چیز مسلط نہیں کر رہے‘ کسی نے اختلافی نوٹ بھی نہیں دیا ٗزاہد حامد وفاقی وزیر قانون کا 22 ویں ترمیمی بل کی منظوری پر چیئرمین سینٹ اور قائد حزب اختلاف سمیت تمام ارکان کا شکریہ ادا

جمعرات 2 جون 2016 19:06

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔02 جون۔2016ء) سینٹ نے 22ویں ترمیمی بل کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی‘ بل کے حق میں 71 ارکان نے وو ٹ دیا ٗمخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔ جمعرات کو اجلاس میں وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے تحریک پیش کی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں مزید ترمیم کرنے کا بل دستور 22واں ترمیمی بل 2016ء قومی اسمبلی سے منظور کردہ صورت میں زیر غور لایا جائے ٗاراکین سینٹ نے 22 ویں آئینی ترمیم پر اعتراضات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے الفاظ پر ہمیں تحفظات ہیں۔

سینٹ میں قائد ایوان اعتزاز احسن نے 22 ویں آئینی ترمیم پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس ترمیم کی زبان پر اعتراض ہے جہاں بی پی ایس 22 کا ذکر آیا ہے وہ نہیں آنا چاہیے تھا۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ بل میں عمر کی زیادہ سے زیادہ حد 68 سال مقرر کی گئی ہے جو ہمارے نزدیک بہت زیادہ ہے تاہم ہمیں یہ بھی اندازہ ہے کہ دس جون سے قبل اس کی منظوری ضروری ہے لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ حکومت یقین دہانی کرائے کہ ایسی بری ڈرافٹنگ نہیں کی جائے گی۔

سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ اس بل کے ذریعے حکومت کو سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ سینیٹر سراج الحق ‘ نعمان وزیر اور الیاس بلور نے بھی بل پر تحفظات کا اظہار کیا۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ یہ اصول نہیں بنایا جانا چاہیے کہ جو بل اسمبلی نے پاس کردیا ہے سینٹ بھی اسے لازمی پاس کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ بل کی زبان درست کی جائیگی۔

سینیٹر بابر اعوان نے کہا کہ ہم ہمیشہ کہتے رہے کہ نظریہ ضرورت کو دفنا دیا جائے آج ہر طرف سے اس کی بو آرہی ہے۔ ایوان بالا کو بے وقعت نہ کیا جائے ٗکہا جارہا ہے کہ آج ہی اس بل کو منظور کرلیا جائے۔ حکومت کو یہ بل پہلے لانا چاہیے تھا۔ بیرسٹر سیف نے کہا کہ اس بل میں کئی غلطیاں ہیں اس کی نشاندہی ضروری ہے کیونکہ اس کی غلط تشریح ہو سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ارکان کی مدت ختم ہونے سے کافی پہلے یہ بل لانا چاہیے تھا۔

عجلت میں قانون سازی کے غلط نتائج نکلیں گے۔ سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ ایوان بالا میں بھی اس بل پر بات ہونی چاہیے۔ سینیٹر میر کبیر محمد شاہی نے کہا کہ بل کو مناسب وقت پر لانا چاہیے تھا اس ایوان کو بھی مشاورت میں شامل کرنا چاہیے تاہم پارٹی فیصلے کے مطابق بل کی حمایت کرتے ہیں۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ بل کی حمایت میں ووٹ دیں گے لیکن سینٹ کو اہمیت دی جائے۔

سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ بل کی ڈرافٹنگ میں بہت سی چیزوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ معاملے کو تاخیر سے زیر غور لایا گیا۔ اگر طریق کار تبدیل نہ کیا گیاتو ریٹائرڈ ججوں کی ہی تعیناتی ہوگی جو پرانا طریق کار تھا جو ہم نہیں چاہتے اور باقی سیاسی جماعتیں بھی نہیں چاہتیں۔ سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ بل کی حمایت نہیں کرتا۔ مصلحتوں کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔

ایوان سے واک آؤٹ کرتا ہوں اس کے ساتھ ہی وہ ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ آرٹیکل 254 راستہ تجویز کرتا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ انتخابی اصلاحات کمیٹی میں 30 میں سے 10 ارکان سینٹ تھے۔ 18 ویں ترمیم میں ہم نے تحمل سے کام کیا۔ ہم نے بھی اپنے اعتراضات دیئے۔ 17 مئی کو انتخابی اصلاحات کمیٹی نے اپنی رپورٹ دیدی تھی۔

کمیٹی کے 18 اور 56 اجلاس ذیلی کمیٹی کے ہوئے۔ کمیٹی میں تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود تھی۔ کمیٹی کے ارکان سے دو بار درخواست کی گئی کہ اپنے ارکان اور رہنماؤں کو اعتماد میں لیں اب یہ کہنا کہ قومی اسمبلی بل تھونپ رہی ہے غلط ہے۔ چار بل جن میں سینٹ نے ترمیم کی وہ میں نے جاکر قومی اسمبلی سے دوبارہ منظور کرائے۔ حکومتی چاہتی تو مشترکہ اجلاس بلا سکتی تھی ہم نے ایوان بالا کا احترام کیا۔

انتخابی اصلاحات کمیٹی میں اتفاق رائے سے فیصلے کئے ۔جو ارکان آج یہاں بول رہے ہیں یہ بھی کمیٹی میں تھے۔ میں بھی دو گھنٹے کی تقریر کر سکتا ہوں لیکن موضوع پر رہوں گا۔ بل میں چیف الیکشن کمشنر اور ممبرز کی اہلیت کا تعین اتفاق رائے سے کیا گیا ہے۔ ہم نے بہت محنت سے کام کیا ہے۔ سینٹ کی طرح چار میں سے دو ممبرز باری باری ریٹائر ہوں گے۔ روٹیشن کا طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے۔

اہلیت کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے۔ بائیسویں ترمیم ہم نے نہیں کی یہ سب کی مشاورت اور خواہش سے آئی ہے۔ اتفاق رائے سے سب فیصلے کئے گئے۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی میں شامل ممبران کو اپنے ساتھی ارکان کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ میں نے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری کی ہے اور اپنے قومی اسمبلی اور سینٹ کے ساتھیوں کو اعتماد میں لیا ہے۔ کمیٹی میں کوئی چیز مسلط نہیں کی۔

سب فیصلے اتفاق رائے سے ہوئے۔ وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ کمیٹی کے 34 ارکان میں سب جماعتوں کی نمائندگی تھی اور وسیع تر اتفاق رائے تھا۔ 11 سینیٹرز بھی ان میں شامل تھے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے خود کو نہیں گنا۔ کمیٹی میں تمام کام اتفاق رائے سے ہوا‘ ہم کوئی چیز مسلط نہیں کر رہے‘ کسی نے اختلافی نوٹ بھی نہیں دیا۔ شبلی فراز نے کہا کہ کمیٹی میں فیصلے اتفاق رائے سے ہوئے تھے۔

سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ سینیٹ ربڑ سٹیمپ نہیں ہے۔ 22ویں ترمیم کا مسودہ ناقص ہے۔ اگرچہ اس سے بل کی روح متاثر نہیں ہوتی اور مفہوم خراب نہیں ہوتا۔ اس کے بعد چیئرمین نے بل پر رائے شماری کرائی۔ ارکان نے نشستوں پر کھڑے ہو کر بل کی حمایت اور مخالفت میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔ بل کی حمایت میں 72 ارکان اور مخالفت میں کسی رکن نے ووٹ نہیں دیا۔

اس طرح دو تہائی ارکان کی مطلوبہ اکثریت حاصل ہوگئی۔ سینیٹر محسن لغاری نے بل کی کلاز 2 میں ترمیم پیش کی جس کی حکومت نے مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ لفظ ’’ سرونٹ‘‘ کی جگہ لفظ ’’ سٹاف‘‘ تحریر کیا جائے۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ ’’ سٹاف‘‘ کا لفظ آفیسرز کے لئے استعمال نہیں ہوتا۔ چیئرمین نے ترمیم پر ایوان کی رائے حاصل کی ٗایوان نے ترمیم مسترد کردی۔

کلاز 2 کے حق میں 69 ارکان اور مخالفت میں ایک رکن نے ووٹ دیا۔ کلاز 3 کے حق میں 71 ارکان نے ووٹ دیا۔ کسی نے مخالفت نہیں کی۔ کلاز 4 میں سینیٹر محسن لغاری نے ترمیم پیش کی۔ حکومت کی طرف سے مخالفت پر انہوں نے کہا کہ سول سرونٹ کی تعریف آئین میں واضح ہے۔ الگ سے تشریح کی ضرورت نہیں۔ چیئرمین نے ترمیم پر ایوان کی رائے حاصل کی۔ ایوان نے ترمیم مسترد کردی جس کے بعد چیئرمین نے کلاز فور پرگنتی کرائی۔

بل کے حق میں 69 ارکان اور مخالفت میں ایک رکن نے ووٹ دیا۔ کلاز پانچ میں بھی سینیٹر محسن لغاری نے ترمیم پیش کی۔ چیئرمین نے رائے شماری کرائی تو ارکان نے ترمیم مسترد کردی۔ 69 ارکان نے ترمیم کی مخالفت اور صرف ایک رکن نے حق میں ووٹ دیا۔ کلاز چھ کے حق میں 70 ارکان نے اور مخالفت میں کسی نے ووٹ نہیں دیا۔ کلاز 7 ، 8 ، 9، 10 ، 11 اور 1 کے حق میں بھی تمام ارکان نے ووٹ دیا کسی نے مخالفت نہیں کی۔

جس کے بعد وزیر قانون زاہد حامد نے بل ایوان میں پیش کیا۔ بل کے حق میں 71 ارکان نے ووٹ دیا جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔ اس طرح کل ارکان کی دو تہائی اکثریت سے بل منظور ہوگیا۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے 22 ویں ترمیمی بل کی منظوری پر چیئرمین سینٹ اور قائد حزب اختلاف سمیت تمام ارکان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بل کی منظوری تاریخی موقع ہے۔ اجلاس کے دوران بل کی منظوری کے بعد انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل اتفاق رائے سے لایا گیا اور تمام ارکان نے بل کی منظوری میں تعاون کیا۔ بل کی منظوری پر چیئرمین سینٹ‘ قائد حزب اختلاف اور حکومتی و اپوزیشن بنچوں سے تعلق رکھنے والے تمام ارکان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :