احمد آباد مسلمانوں کے قتل عام کے مقدمے میں 24ہندﺅ انتہاپسندوں پر فردجرم عائد

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 2 جون 2016 12:50

احمد آباد مسلمانوں کے قتل عام کے مقدمے میں 24ہندﺅ انتہاپسندوں پر فردجرم ..

احمدآباد(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔02جون۔2016ء) بھارتی ریاست گجرات میں خصوصی عدالت نے 2002 میں ہونے والے احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی میں ہونے والے مسلمانوں کے قتلِ عام کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے 24 ملزمان کو قصوروار قرار دیا ہے۔جن میں ہندو انتہاپسند تنظیم وشو ہندو پریشد کے ایک رہنما اتل ویدیہ بھی شامل ہیں۔مجرمان کی سزا کا تعین6 جون کو کیا جائے گا۔

خصوصی عدالت کے جج پی وی دیسائی نے جمعرات کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے 36 دیگر ملزمان کو بری کر دیا۔ایک مشتعل ہجوم نے 28 فروری 2002 کو احمد آباد کی گلبرگ ہاو¿سنگ سوسائٹی میں داخل ہو کر 69 مسلمانوں کو قتل کر دیا تھا جن میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمان احسان جعفری بھی شامل تھے۔یہ فسادات سابرمتی ایکسپریس ٹرین میں ہونے والے حملے کے بعد ہوئے تھے جس میں 59 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

(جاری ہے)

احمد آباد کی گلبرگ ہاوسنگ سوسائٹی کا یہ مقدمہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں چلا۔گجرات فسادات سے متعلق دیگر مقدمات بھی سپریم کورٹ کی نگرانی میں جاری ہیں۔28 فروری کے حملے میں فیروز گلزار خان پٹھان کے خاندان کے پانچ ارکان ہلاک ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں اس دن کا بے صبری سے انتظار تھا۔میں چاہتا ہوں کہ قصور واروں کو پھانسی کی سزا ہو۔

یہ مقدمہ 67 افراد کے خلاف دائر ہوا تھا لیکن مقدمے کی سماعت کے دوران چار لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔مقدمے میں بحث کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ اس دن مشتعل ہجوم سوسائٹی کے اندر گھس آیا اور چار گھنٹے تک قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری رہا۔بچے، بوڑھے اور خواتین سابق رکن پارلیمان احسان جعفری کے دو منزلہ مکان میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ آخر میں احسان جعفری خود باہر آئے اور ہجوم سے کہا کہ وہ ان کی جان لے لیں لیکن بچوں اور عورتوں کو بخش دیں۔

مشتعل افراد انھیں گھسیٹ کر باہر لائے اور ان پر تشدد کر کے انھیں ہلاک کر دیا۔اس کے بعد ہجوم نے ان کے گھر کو بھی آگ لگا دی۔فیروزگلزار خان پٹھان بھی حملے میں زخمی ہوئے تھے۔ وہ سامنے والے گھر کی چھت سے سارا منظر دیکھ رہے تھے۔میری امی احسان جعفری کے گھر جا رہی تھیں۔ میری آنکھوں کے سامنے انھوں نے ماں کو قتل کر دیا۔ میرے ابو اور دو بھائیوں اور ایک بہن کو بھی وہیں مار ڈالا۔

اس حملے میں سعید خان کے خاندان کے دس ارکان ہلاک ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں انصاف چاہیے۔ اگر عدالت میں انصاف نہیں ملا تو اللہ انصاف کرے گا۔ لیکن مجھے لگتا ہے انصاف ہو گا۔اس دن سعید خان بھی احسان جعفری کے گھر میں پناہ لینے والوں میں سے تھے۔ وہ موت کے بہت نزدیک تھے لیکن وہ کچن کے پیچھے، دروازے کے ٹھیک باہر دیوار کی آڑ میں چھپے رہے۔

اپنی بیوی، ماں اور خاندان کے اہم ارکان کو قتل ہوتا دیکھتے رہے۔میں دیکھتا رہا۔ میری آنکھوں کے سامنے ہی میرا خاندان ختم ہو گیا۔سعید خان کے مطابق کچھ لوگوں نے ان سے کہا کہ ماضی میں جو ہوا، اسے بھول جاو۔ اب آگے بڑھو لیکن ان کا جواب تھا کہ کس طرح بھول جائیں؟ انصاف ہوگا تو بھول جائیں گے۔ان کے وکیل ایس ایم ووہرا بھی ’بھول جاو‘ کا مشورہ دینے والوں سے ناراض ہیں’کسی کے خاندان کے دس افراد ہلاک ہو گئے اور کسی کے 14، آپ ان کو بھول جانے کا مشورہ کیسے دے سکتے ہیں؟اس مقدمے کی سماعت کے دوران چار ججوں کے تبادلے ہو چکے ہیں اور 338 افراد کی گواہی شامل کی گئی ہے۔

متعلقہ عنوان :