وفاق نے سندھ کے ساتھ آمروں والا رویہ اختیار کررکھا ہے، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ

حکومت سندھ وفاق کی جانب سے سندھ کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں پر ہر فورم پر آواز بلند کرے گی عجلت میں منظور کیے جانے والے وفاقی بجٹ سے صرف پنجاب مطمئن ہے باقی تین صوبے مطمئن نہیں، پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب

بدھ 1 جون 2016 22:44

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔یکم جون۔2016ء) وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ حکومت سندھ وفاق کی جانب سے سندھ کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں پر ہر فورم پر آواز بلند کرے گی لیکن موجودہ سیاسی ماحول کے پیش نظر معاملات کو اس حد تک نہیں لے جایا جائے گا کہ جہاں جمہوریت کو خطرہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی بجٹ میں سندھ کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی ہے، پیپلزپارٹی کے ارکان پارلیمنٹ اس پر بھرپور طریقے سے آواز بلند کریں گے۔

وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ وفاق نے سندھ کے ساتھ آمروں والا رویہ اختیار کررکھا ہے، عجلت میں منظور کیے جانے والے وفاقی بجٹ سے صرف پنجاب مطمئن ہے باقی تین صوبے مطمئن نہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ بدھ کی شام چیف منسٹر ہاؤس میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔

(جاری ہے)

اس موقع پر ان کے ہمراہ سینئیر صوبائی وزراء نثاراحمد کھوڑو، سید مراد علی شاہ، مشیراطلاعات سندھ مولابخش چانڈیو، رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ اور وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی وقار مہدی اور راشد ربانی بھی موجود تھے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ گزشتہ روز اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کا اجلاس منعقد ہوا، آئین کے تحت اس اجلاس کی صدارت وزیراعظم کو کرنا ہوتی ہے۔ اجلاس میں صوبائی وزراء اعلیٰ اور وزراء خزانہ بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ 8 کھرب روپے سے زائد وفاقی ترقیاتی پروگرام یعنی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) 2016-17 میں سے سندھ کو صرف ساڑھے 12 ارب روپے کا حصہ دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاق مالیاتی وسائل کی کس طرح تقسیم کرتا ہے، کسی کو کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ سندھ کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔ وفاق کو بتانا چاہیے کہ سندھ کو اتنے پیسے کیوں دیئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ای سی سی کے اجلاس میں وزیراعظم نے ویڈیو لنک پر چند جملے ادا کیے، وزراء اعلیٰ نے ان کی خیریت دریافت کی، بس یہی اجلاس تھا۔ میں نے آخر میں وزیراعظم سے کہا کہ وہ وفاقی وزیرخزانہ اور پلاننگ کمیشن کے وزیر سے کہے کہ سندھ کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ازالہ کیا جائے۔

مگر وزیراعظم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ای سی سی کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار سے کہا کہ ای سی سی کا باقاعدہ اجلاس تو کرلیا جائے تو انہوں نے جواب دیا کہ انہیں وفاقی کابینہ میں جانا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آئینی طور پر ای سی سی کا اجلاس ہی منعقد نہیں ہوا۔ سید قائم علی شاہ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی 2016-17 میں سے سندھ کے بڑے منصوبے کاٹ دیئے گئے اور کہا کہ ساڑھے 12 ارب روپیہ صرف سندھ کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے کراچی کے لیے گرین لائن بس کا افتتاح کیا۔ میں نے وزیراعظم سے کراچی کے پانی کے منصوبے ’’کے فور‘‘ پر بھی بات کی تھی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ منصوبے کے لیے جتنی رقم سندھ دے گا اتنی ہی رقم وفاقی حکومت دے گی۔ سندھ نے منصوبے کے لیے ڈھائی ارب روپے مختص کیے تو وفاق نے بھی ڈھائی ارب روپے کردیئے مگر 25 ارب روپے کا یہ منصوبہ 5 ارب روپے میں کیسے مکمل ہوگا۔

وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس منصوبے کے لیے 10 ارب روپے فراہم کرے۔ کیونکہ اس سے وفاق سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔ لیکن آئندہ سال اس منصوبے کے لیے وفاق نے صرف 7 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم کراچی کو بارونق کرنا چاہتے ہیں، شہر میں صفائی کے لیے خصوصی رقم جاری کیے مزید بھی جاری کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وفاق ہماری بات سنے یا نہ سنے ہم اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے رہیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ سندھ اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ رواں مالی سال کے دوران حکومت سندھ ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کردہ بجٹ کو پوری طرح استعمال نہیں کرسکی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص بجٹ کا 60 فیصد سے زائد کا استعمال کیا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ 6 ماہ کے دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے عائدکردہ پابندیوں اور اعلیٰ عدلیہ کے بعض احکامات کے باعث ہم ترقیاتی بجٹ کو پوری طرح استعمال نہیں کرسکے، حتیٰ کہ لوگوں کو نوکریاں بھی نہیں دی گئیں اور ان کو پابندی عائد کرنا پڑیں۔

اس موقع پر سینیئر وزیر خزانہ، منصوبہ بندی وترقیات سید مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاق سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) کے لیے صوبوں کو رقم جاری کرتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وفاقی ترقیاتی منصوبوں کا حجم ساڑھے 3 سو ارب روپے تھا۔ اس میں سندھ کا حصہ 18 ارب روپے تھا۔ اب وفاق نے پی ایس ڈی پی 800 ارب تک پہنچا کر سندھ کو صرف ساڑھے 12 ارب روپے ترقیاتی اسکیموں کے لیے دیئے ہیں۔

2012-13 میں وفاق کی مدد سے چلنے والی سندھ کی 47 ترقیاتی اسکیمیں تھیں، اب صرف 25 اسکیمیں رکھی گئی ہیں۔ یہ بڑی زیادتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ سال کے لیے وفاق نے 2001 ترقیاتی اسکیمیں رکھی ہیں۔ سندھ حکومت نے اپنی 7 ترقیاتی اسکیمیں بناکر وفاق کو بھیجی تھیں۔ ان میں سے ایک اسکیم کو بھی پی ایس ڈی پی میں شامل نہیں کیا ہے۔ کراچی کے پانی کے منصوبے کے فور کے لیے سندھ حکومت نے 6 ارب روپے رکھے لیکن وفاقی حکومت نے صرف ایک ارب روپے مختص کیے۔

سندھ میں سڑکوں کا جال بچھانے کے لیے سندھ حکومت نے 70 ارب روپے مختص کیے۔ انہوں نے کہا کہ ای سی سی کے اجلاس کے بارے میں صرف ایک رات پہلے تحریری طور پر آگاہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سندھ کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے جتنی رقم مختص کی ہے اس سے یہ اسکیمیں 20 سے 40 سال میں مکمل ہوں گی۔ یہ رقم اتنی تاخیر سے جاری کی جارہی ہے کہ ہمارے بچے یہ منصوبے مکمل ہوتے دیکھ سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ سندھ کو کھنڈر بنانا چاہتے ہیں۔ اب وفاق سے جھگڑا بھی صرف قومی اسمبلی میں ہوگا۔ پیپلزپارٹی کے ارکان قومی اسمبلی یہ معاملہ پارلیمنٹ میں بھرپور طریقے سے اٹھائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ کا بجٹ جمعہ 10 جون کو سندھ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔