Live Updates

قومی اسمبلی کی کارکردگی،تیسرے پارلیمانی سال میں کارکردگی میں 5 فیصد پوائنٹ کی تنزلی آئی۔پلڈاٹ

قومی اسمبلی32 فیصد سکور کے ساتھ احتساب کے شعبے میں کمزور ترین رہی،ارکان قومی اسمبلی کی 2015-2016 ء میں فی نشست مجموعی حاضری 61 فیصد رہی،وزیر اعظم نے 10 فیصدنشستوں جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے 5فیصدنشستوں میں شرکت کی،ارکان قومی اسمبلی نے 42 نجی مسودات قانون پیش کئے،یہ تعداد گزشتہ سال پیش کئے جانے والے 26 مسودات قانون سے 62 فیصد زیادہ ہے۔پلڈات کی سروے رپورٹ

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ منگل 31 مئی 2016 17:48

قومی اسمبلی کی کارکردگی،تیسرے پارلیمانی سال میں کارکردگی میں 5 فیصد ..

لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔31مئی۔2016ء) :پلڈاٹ نے تیسرے پارلیمانی سال میں چودھویں قومی اسمبلی کی کارکردگی پرسروے رپورٹ جاری کردی ہے، جس کے ا سکور کارڈسے پتہ چلتا ہے کہ قومی اسمبلی کی مجموعی کارکردگی میں دوسرے سال کی نسبت 5 فیصد پوائنٹ کی تنزلی آئی جو 48 فیصد سے کم ہو کر 43 فیصد رہ گئی،اگر اس کی کارکردگی کا 13 ویں(گزشتہ) قومی اسمبلی سے موازنہ کیا جائے،جو 49 فیصد تھی،تواس لحاظ سے بھی کارکردگی میں گراوٹ آئی ہے۔

پلڈات کے مطابق احتساب کا شعبہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی (32 فیصد سکور کے ساتھ) قومی اسمبلی کا سب سے کمزور شعبہ رہا ۔ جبکہ سینیٹ آف پاکستان،کمیٹی برائے اخلاقیات کی تشکیل اور ضابطہ اخلاق وضع کر کے اہم اصلاحات کر رہی ہے،قومی اسمبلی میں ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکا ہے۔

(جاری ہے)

قواعد انضباط کار کے تحت ایوان میں قومی اسمبلی کے ارکان کے رویے پر نظر رکھنے کا کلی اختیار سپیکر قومی اسمبلی کے پاس ہے جو اپنی صوابدید پر کسی رکن قومی اسمبلی کو معطل کر سکتا ہے یا کسی نشست کو ملتوی کر سکتا ہے۔

پلڈاٹ پُرزور سفارش کرتا ہے کہ قومی اسمبلی،ارکان کے لئے ضابطہ اخلاق وضع اور نافذ کرے جس کی ایک عرصے سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ اگرچہ ارکان قومی اسمبلی اپنے اثاثہ جات کے گوشوارے الیکشن کمیشن کے پاس جمع کراتے ہیں۔تاہم پانامہ پیپر کے لیک ہونے جیسے حالیہ واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ ارکان قومی اسمبلی کو شہریوں کے سامنے جوابدہ بنانے کے لئے یہ نا کافی ہے۔

پلڈاٹ کی رائے ہے کہ ارکان قومی اسمبلی کی جوابدہی کے لئے خود پارلیمان کے اختیارات میں اضافے کی ضرورت ہے۔ ایسا مفادات کے تصادم کی تصریحات متعارف کرانے کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔امکان ہوتا ہے کہ ارکان قومی اسمبلی کا سیاست کے علاوہ کوئی ذریعہ روزگار بھی ہو گا جو انہیں بطور رکن اسمبلی اپنے کردار سے ہٹ کر مفادات رکھنے پر منتج ہوتا ہو۔

پلڈاٹ کی تجویز ہے کہ ارکان قومی اسمبلی ایک رجسٹر برائے مالیاتی مفادات میں اپنے وہ تمام مالی مفادات درج کریں جو اُن کے بطور رکن اسمبلی فرائض اور ان کے ممکنہ مفادات میں تصادم کا سبب بن سکتے ہوں۔ایسا رجسٹر بھارتی اور برطانوی دونوں پارلیمانوں میں مرتب کیا جاتا ہے اور اس کی پاکستان میں پیروی کی جا سکتی ہے تا کہ ارکان قومی اسمبلی‘ عوامی مفاد میں رائے شماری اور بحث میں حصہ لے سکیں۔

یہ رجسٹر‘ مفادات کے تصادم کے الزامات میں کمی کا باعث ہو گا اور ارکان قومی اسمبلی کے کام کے جواز اور ساکھ کو بھی سہارا دے گا۔2015-2016 ء میں انتظامیہ کی نگرانی کو 44 فیصد سکور ملا۔ قائدِ حزب اختلاف سید خورشید شاہ رکن قومی اسمبلی (این اے ۔199 سندھ ،پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز) کی زیر قیادت پبلک اکاوٴنٹس کمیٹی اور اس کی ذیلی کمیٹیوں کے اس سال 118 اجلاس منعقد ہوئے ۔

جو گزشتہ سال کے 91 اجلاسوں سے 30 فیصد زیادہ ہیں۔ 2015-2016 میں سٹینڈنگ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹیریٹ سب سے زیادہ فعال رہی اور اس کمیٹی اور اس کی ذیلی کمیٹیوں کے 38 اجلاس منعقد ہوئے۔ سب سے زیادہ غیر فعال سٹینڈنگ کمیٹی‘ میاں عبدالمنان رکن قومی اسمبلی (این اے۔83 پنجاب،پاکستان مسلم لیگ نواز) کی زیر صدارت سٹینڈنگ کمیٹی برائے پارلیمانی امور رہی جس کے صرف 5 اجلاس ہوئے۔

ہو سکتا ہے کہ ارکان قومی اسمبلی انتظامیہ کی کڑی نگرانی کرتے ہوں‘تاہم پلڈاٹ کو اس امر پر تشویش ہے کہ محترم سپیکر سردار ایاز صادق نے 2015۔2016 میں ایک بھی تحریک التوائے کار منظورنہیں کی۔یہ رجحان پریشان کن ہے کیونکہ تحاریک التوائے کار ایوان میں فوری نوعیت کے معاملات اُٹھانے کا ایک اہم وسیلہ ہیں۔مالیاتی امور کی نگرانی کے لئے بھی کوئی خاص پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔

3 جون 2016ء کو وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار،ایوان میں روائتی بجٹ تقریر کرنے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ روائت ہے‘ بجٹ اجلاس 2 سے3 ہفتوں میں ختم ہو جائے گا اور وفاقی بجٹ برائے 2015۔2016 مناسب جانچ کے بغیر منظور کر لیا جائے گا۔ جون 2015 میں قومی اسمبلی نے بجٹ پر صرف 15 نشستوں میں بحث کی۔ اس کے مقابلے میں بھارتی لوک سبھا نے اپنے 2016 کے بجٹ پر 87 ایام کار پر محیط 31 نشستوں میں بحث کی۔

جن ایام میں لوک سبھا میں نشست نہیں ہوئی،ان میں محکمانہ بجٹ کی جانچ کرنے والی مخصوص کمیٹیوں کے اجلاس ہوئے۔ قومی اسمبلی کے قواعد‘ مالیاتی مسودہ قانون کو سٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کرنے کی صراحتاً ممانعت کرتے ہیں جو قومی اسمبلی میں بجٹ کے عمل میں درکار واحد سب سے بڑی اصلاح ہے۔2000 سے زائد صفحات پر مشتمل بجٹ دستاویز میں تکنیکی تفصیلات ہوتی ہیں جو آنے والے مالی سال کے لئے حکمت ہائے عملی پیش کرتی ہیں۔

سٹینڈنگ کمیٹیوں میں تفصیلی جانچ کے بغیر ارکان قومی اسمبلی کو بجٹ دستاویز پڑھنے کے لئے صرف 2 دن اور بجٹ منظور کرنے کے لئے صرف دو ہفتے دیئے جاتے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہاگیاہے کہ پارلیمان میں کوئی بھی کام ارکان اسمبلی،جو عوامی خواہشات کے نمائندے ہوتے ہیں،کی متحرک شرکت کے بغیر انجام نہیں پا سکتا ۔ 2015۔2016 میں ارکان قومی اسمبلی کی حاضری کل رکنیت کا 61 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

340 میں سے اوسطاً 206 ارکان فی نشست حاضر رہے۔ تاہم اس سال منعقد ہونے والی 103 نشستوں میں سے 17 میں کورم پورا نہیں تھا جو اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ اگرچہ ارکان قومی اسمبلی ایوان میں آئے تو ضرور،تاہم بہت سے ارکان صرف حاضری لگانے کے لئے آئے اور ایوان کی پوری کارروائی میں شرکت نہیں کی۔سب سے مایوس کن حاضری،وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف رکن قومی اسمبلی کی رہی جنہوں نے 2016۔

2015 میں منعقد ہونے والی نشستوں میں سے صرف 10 فیصد نشستوں میں شرکت کی۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں سینیٹ کی نسبت زیادہ شرکت کی جہاں وہ صرف ایک مرتبہ آئے۔پانامالیکس سکینڈل‘ جس کا ملک بھر میں چرچا ہے اور قومی اسمبلی کے آخری اجلاس میں بھی اس کا تذکرہ غالب رہا، کے تناظر میں حزب اختلاف نے اجلاسوں کا اس وقت تک بائیکاٹ جاری رکھا جب تک وزیر اعظم ان کے سوالات کا جواب دینے ایوان میں نہیں آئے۔

وزیراعظم کے خلاف احتجاج کی قیادت کرنے والے ایک پارلیمانی رہنماء رکن قومی اسمبلی عمران خان (این اے۔56پنجاب ،پاکستان تحریک انصاف) تھے جن کی حاضری کا ریکارڈ وزیراعظم سے بھی زیادہ خراب رہا اور ان کی سال بھر میں صرف 5 فیصد حاضری رہی۔ اپنی کم حاضری کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ، اپنے حلقہ نیابت اوراپنی جماعت کی ایوان میں نمائندگی ،دونوں میں ناکام رہے۔

دیگر پارلیمانی رہنماؤں کا ریکارڈ بہتر رہا۔ رکن قومی اسمبلی افتخار الدین) این اے۔32خیبرپختونخواہ ،آل پاکستان مسلم لیگ) کی حاضری سب سے زیادہ 85 فیصد رہی۔ اس دوران قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی 73 فیصد حاضری سے متاثر کیا۔ شہریوں کی مناسب نمائندگی کے لئے قومی اسمبلی کو 50 فیصد سکور ملا۔2016۔2015 ء میں قومی اسمبلی کو سب سے زیادہ 51 فیصد سکور‘ قانون سازی کی صلاحیت پر ملا۔

مقننہ میں فعال ارکان نے 42 غیر سرکاری مسودات قانون پیش کئے جو گزشتہ سال پیش کئے جانے والے 26 مسودات قانون سے 62 فیصد زیادہ ہیں۔ ارکان اسمبلی کی اس اہم کامیابی کے باوجود‘ جلد بازی میں قانون سازی کرنے کا پریشان کن رجحان دیکھنے میں آیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کے انتخاب کے عمل کی ازسرنو تو ضیح کے لئے کی جانے والی 22 ویں آئینی ترمیم‘ 19 مئی کے روز پیش کی گئی اور اسی روز منظور کر لی گئی۔

یہ واحد مثال نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے پیش کئے جانے والے اکثر قوانین‘ قانون سازی کے مطلوبہ طریق کا ر سے نہیں گزرتے۔مثال کے طور پر فوجی عدالتوں کی جانب سے مقدمات کی تیز رفتار سماعت کا اہتمام کرنے والی 21 ویں آئینی ترمیم میں بھی قوائد انضباط کار میں دئیے گئے طریق کار (جیسے مجالس کی جانب سے جانچ) کے مراحل سے صرف ِنظر کیا گیا۔2016۔2015 ء میں پارلیمان کو متعدد بار نظر انداز کیا گیا ۔

مثال کے طور پر قوانین کو بلڈوز کرنے کے لئے آرڈینسز کا اجرا کیا گیا۔ پی آئی اے کا آرڈیننس 7 دسمبر کو اُس وقت جاری کیا گیا جب قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے میں محض 48 گھنٹے رہتے تھے۔ آرڈیننس کا اجراء آئین پاکستان میں کیا گیا وہ اہتمام ہے جس کے تحت ہنگامی صورت حال میں اس وقت قانون سازی کی جاتی ہے جب اسمبلی کا اجلاس نہیں ہو رہا ہو۔ ایسا کوئی قومی بحران نہیں تھا کہ پی آئی اے کا آرڈیننس جاری کیا جاتا۔ اس سے قبل حکومت نے بالواسطہ ٹیکس بڑھانے کے لئے نومبر 2015 میں منی بجٹ متعارف کروا کے پارلیمان کو نظرانداز کیا۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات