800بلین روپے میں سے صرف 12.05بلین روپے سندھ کے لئے مختص کئے گئے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ

یہ وزیراعظم کے وعدہ کئے گئے اور اعلانات کے برعکس ہیں اور یہ صوبہ سندھ کے لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہے

پیر 30 مئی 2016 23:01

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔30 مئی۔2016ء) وفاقی حکومت کے مجوزہ نئے پبلک سیکٹر ڈولیپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی 2016-17) کے جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اس بات پر حیرت اور افسوس کا اظہار کیا کہ 800بلین روپے میں سے صرف 12.05بلین روپے سندھ کے لئے مختص کئے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ وزیراعظم کے وعدہ کئے گئے اور اعلانات کے برعکس ہیں اور یہ صوبہ سندھ کے لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہے۔

اجلا س میں سینئر صوبائی وزیر خزانہ و ترقیات سید مراد علی شاہ ، پرنسپل سیکریٹری علم الدین بلو ، ایڈیشنل چیف سیکریٹری (ترقیات ) وسیم احمد ، سیکریٹری خزانہ سہیل راجپوت و دیگر نے شرکت کی۔ سینئر وزیر برائے خزانہ اور منصوبہ بندی و ترقیات سید مراد علی شاہ نے وزیراعلیٰ سندھ کو بریفینگ دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے آنے والے مالی سال کے پی ایس ڈی پی کے لئے 800بلین روپے تجویز کئے ، اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے ان سے پوچھا کہ ان میں صوبہ سندھ کی کتنی جاری اسکیمیں ہیں اور ان کے لئے کتنے فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

سید مراد علی شاہ نے کہا کہ صرف 25اسکیمیں ہیں جن کے لئے صرف 12.05بلین روپے سندھ حکومت کے لئے مجوزہ پی ایس ڈی پی میں شامل کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے گڈو بیراج کی بحالی کے کام اور حیدرآباد تا سکھر موٹر وے کے آغاز کا اعلان کیا تھا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان کے اعلانات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جس پر انہوں نے حیرانگی اور تعجب کا اظہار کیا۔

آئندہ پی ایس ڈی پی میں نئی اسکیموں سے متعلق باتیں کرتے ہوئے سید مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے آئندہ کے پی ایس ڈی پی میں 180نئی اسکیمیں شامل کیں ہیں جن میں سے صرف 11سندھ سے متعلق ہیں جس کے لئے 120.77بلین روپے مختص کئے گئے ہیں جو کہ مجموعی رقم کا 6فیصد بنتا ہے۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت کے آئندہ کے مجوزہ پی ایس ڈی پی میں 180اسکیمیں شامل کی گئیں ہیں جن پر لاگت کا تخمینہ 644543.8315ملین روپے بنتا ہے جس میں سے صرف 120.77بلین روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبہ /علاقے کے حساب سے اسکیموں کا بریک اپ اور مختص کردہ فنڈز بھی حیران کن ہیں۔ پنجاب کو 140100.543ملین روپے کی 26اسکیموں کے لئے 16599.025ملین روپے کے فنڈز مختص کئے گئے ہیں جو کہ لاگت کا 14فیصد بنتا ہے ۔ سندھ کو 130475.471مالیت کی صرف 11اسکیمیں دی گئیں ہیں جس کے لئے 6550.881ملین روپے مختص کئے گئے ہیں جو کہ لاگت کا 6فیصد بنتا ہے ۔ کے پی کے کیلئے 115927.99ملین روپے کی 18اسکیمیں رکھی گئی ہیں جس کے لئے 2721بلین روپے مختص کئے گئے جو کہ لاگت کا 10فیصد بنتا ہے۔

بلوچستان کیلئے 43439.715ملین روپے کی 28اسکیمیں ہیں جن کے لئے 28356.403ملین روپے مختص کئے گئے ہیں جو کہ لاگت کا 16فیصد بنتا ہے ۔ گلگت بلتستان کو 15394.5465ملین روپے کی 7اسکیمیں ہیں جن کے لئے 1100ملین روپے مختص کئے گئے جو کہ مجموعی لاگت کا 4فیصد بنتا ہے اے جے کشمیر کے لئے 3733.453ملین روپے کی دو اسکیمیں ہیں جس کے لئے 765ملین روپے مختص کئے گئے ہیں جو کہ لاگت کا ایک فیصد بنتا ہے۔

اسلام آباد کے لئے 195472.113ملین روپے کی 88اسکیمیں ہیں جن کے لئے 64678.408ملین روپے مختص کئے گئے جو کہ لاگت کی 49فیصد بنتا ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ کے لئے 6نئی اسکیمیں آئندہ کے پی ایس ڈی پی میں شامل کی جائیں اور ان کے لئے خاطر خواہ فنڈز بھی مختص کئے جائیں ۔ ان اسکیموں میں انڈس ہائی وے جامشورو سیہون کو دو رویہ سڑک کی تعمیر ، سکھر بیراج کی بحالی کا منصوبہ ، فلڈ انفراسٹکچر کی اپ گریڈیشن ، 25ملین پودوں کی شجر کاری تاکہ سندھ میں موسم کی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہوا جاسکے ، کراچی شہر کو پانی کی فراہمی کے لئے کے بی فیڈر اپر کینال کی لائننگ شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ وفاقی حکومت پر زور دیں گے کہ وہ ان چند اہم منصوبوں کے لئے مختص کردہ فنڈز میں اضافہ کرے ۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے کے فور کے لئے صرف 500ملین روپے مختص کئے ہیں جن میں 5.3بلین روپے تک اضافہ کیا جائے تاکہ یہ دو سالہ مدت کے اندر مکمل ہوسکے۔ یہ 25.551بلین روپے کا منصوبہ ہے جس میں وفاقی اور صوبائی حکومت کا حصہ 50:50فیصد ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ماکھی فراش لنک کینال پروجیکٹ (فیز II) سے تھر کول کی پانی کی ضروریات پوری ہونگی ۔ اس منصوبہ کی مجموعی لاگت 10.61بلین روپے ہے جس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا برابر کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ وفاقی حکومت پر زور دیں گے کہ وہ 50ملین روپے کے مجوزہ مختص کردہ فنڈز کو بڑھاکر2بلین روپے کرے۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری محمد وسیم نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ڈسٹری بیوٹریز اور مائینرز کی لائننگ کیلئے صرف 10ملین روپے تجویز کئے گئے ، جس میں 3بلین روپے تک اضافہ ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ایک بلین روپے کی معمولی رقم ملک بھر کے نارمل سالانہ ترقیاتی پروگرام(امرجنٹ فلڈ اسکیم) پی ایس ڈی پی 992کیلئے رکھے گئے ہیں، جبکہ صوبہ سندھ نے متعدد اہم اسکیمیں جمع کرائیں تھیں جن پر لاگت کا تخمینہ 16بلین روپے سے زائد ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ مختص کردہ فنڈز پورے پاکستان کیلئے ہیں، لہذاہ اس میں 10بلین روپے تک کا اضافہ ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اس حوالے سے وزیراعظم سے بھی بات کی تھی، مگر نہ جانے کیوں پھر بھی اس کیلئے ایک معمولی رقم مختص کی گئی ہے۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری(ترقیات) وسیم نے وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا کہ پی ایس ڈی پی میں سندھ حکومت کا حصہ عمودی پروگرامز کیلئے صوبائی سطح پر 3.93بلین روپے آتا ہے، مگر اس کے مقابلے میں صرف 1.76بلین روپے جاری کئے گئے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت نے محکمہ صحت کے عمودی پروگرامز کیلئے 1.922بلین روپے بطور برج فناسنگ کے فراہم کئے جس کیلئے میں وفاقی حکومت پر زور دونگا کہ وہ یہ واپس کرے، مزید براں وفاقی حکومت حیدرآباد پیکیج کے 842.590ملین روپے بھی واپس کرے۔

متعلقہ عنوان :