لاہور، مریضوں کے منہ سے مہنگی دوائیں بھی چھیننے کا منصوبہ

بل نافذہوگیا تو ملک میں دواسازی کی صنعت تباہی کے دہانے پہنچ جائیگی،نورمحمد مہر

جمعہ 27 مئی 2016 21:58

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔27 مئی۔2016ء) گزشتہ روز پنجاب اسمبلی نے صوبہ بھر کی ڈرگ کورٹ سیکشن18 ترمیم کے تحت وفاق سے واپس لیکر صوبوں کے تحت کرنے کا بِل کثرت ِ رائے سے پاس کرالیاہے لیکن مشہورفارماسسٹ وقانون دان نورمحمد مہرنے اس بل کو عوام کیلئے زہرِقاتل قرار دیا ہے۔ جن کا کہناہے کہ اس بل کے نفاذ سے نہ صرف ادویات کی قیمتوں کا جن بے قابو ہوجائے گا بلکہ فی الوقت دستیاب مہنگی ادویات سے مہنگی ہوجائیں گی ۔

جس سے ایک محتاط اندازے کے مطابق روازنہ900 سے زائد اموات ہوسکتی ہیں۔نورمحمد مہر نے بتایاہے کہ ڈرگ ایکٹ 1976ء (وفاقی قانون برائے ادویات)کے مطابق تمام صوبوں کے ڈرگ کورٹس کے جج صاحبان اور ان کے ساتھ دو فارماسسٹ ممبرٹیکنیکل وفاقی وزارت ِ قانون کرتی ہے۔

(جاری ہے)

قانون میں مذکورہ تبدیلی سے یعنی اس بِل سے صوبہ پنجاب میں صحت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوگا۔

ہرصوبہ کی ڈرگ کورٹس کے فیصلوں کا اطلاق ،اہمیت اور جزئیت کی تبدیلی کی وجہ سے دوا سازی کی صنعت تباہی کے دہانے پر پہنچ جائیگی۔ادویات کی قیمتوں کا جِن پہلے ہی بے قابو ہے اوراس بل کے بعد مزید برا حال ہوجائے گا۔نئے بل کا تمام صوبوں پر یکساں نفاذبھی عذاب سے کم نہ ہوگا۔جس سے ادویات کی قلت ہوجائیگی۔جون2011ء میں جب صحت کے وفاقی نظام کو ڈرگ کورٹ سیکشن18 ترمیم کے تحت صوبوں کے حوالے سے کیاگیاتھا لیکن صوبائی حکومتوں کی نااہلی ،ہوم ورک ،تجربے کی کمی اور PICکیس ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ کے حکم نامہ کے تحت12نومبر 2012ء کو ڈریپ ایکٹ نافذ ہوا۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ڈرگ کورٹ کی کمی،ادویات کی چیک اِن توازن نظام نہ ہونے کی وجہ سے 70% ادویات وغیر میڈیکل سٹوروں پر غیررجسٹریا جعلی ہوتی ہیں۔نورمحمد مہر نے مطالبہ کیاہے کہپنجاب حکومت کے بل برائے ڈرگ کورٹ کوفوری واپس کیا جائے۔ انوکھے قوانین بنانے کے بجائے موجودہ قانون پر عمل درآمد کیاجائے اور صوبوں کو ایک دوسرے سے دُور کرکے مریضوں کے منہ سے مہنگی ادویات بھی نہ چھینی جائیں جو وہ اس وقت بحالت مجبور ی خریدنے پر مجبور ہیں۔

متعلقہ عنوان :