وفاقی حکومت کی گہرے سمندر میں فشنگ کرنے کی اجازت دینے کے باعث سندھ صوبے کی زمینی حدود میں مچھلیوں کی تعداد ختم ہوتی جا رہی ہے، وزیراعلیٰ سندھ

ویتنام جیسا چھوٹا ملک بھی مچھلیوں کی برآمدات 12ملین ڈالر کما رہا ہے،ہماری سی فوڈ کی مجموعی ایکسپورٹ مشکل سے 650ملین ڈالر بنتی ہے، سید قائم علی شاہ

جمعرات 26 مئی 2016 22:45

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔26 مئی۔2016ء) وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی گہرے سمندر میں فشنگ کی پالیسی کے تحت بڑے ٹرالرز کو گہرے سمندر میں فشنگ کرنے کی اجازت دینے کے باعث سندھ صوبے کی زمینی حدود میں مچھلیوں کی تعداد ختم ہوتی جا رہی ہے اور مچھیرے فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔یہ بات بہت ہی مایوس کن ہے کہ ویتنام جیسا چھوٹا ملک بھی مچھلیوں کی برآمدات 12ملین ڈالر کما رہا ہے،جبکہ ہماری سی فوڈ کی مجموعی ایکسپورٹ مشکل سے 650ملین ڈالر بنتی ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے وفاقی وزیر برائے نیچرل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ سردار سکندر حیات بوسن سے وزیراعلیٰ ہاؤس میں گہرے سمندر میں فشنگ پالیسی کے حوالے سے منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں صوبائی وزیر برائے فشریز اینڈ لائیو اسٹاک جام خان شورو، وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری علم الدین بلو، سیکریٹری فشریز رمضان اعوان اور دیگر افسران نے شرکت کی۔

اس موقعے پر وفاقی وزیر سردار سکندر حیات بوسن نے کہا کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے ساتھ مشاورت کرکے نئی فشنگ پالیسی لانے میں سنجیدہ ہے اور اسی وجہ سے میں یہاں آپ کے ساتھ ان معاملات پر گفتگو کرنے آیا ہوں، تاکہ ایک قابل قبول فشنگ پالیسی مرتب کی جائے۔وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت 18ویں آئینی ترمیم پر من و عن عمل درآمد کرانے میں ٹال مٹول کر رہی ہے۔

سمندر صوبے سندھ اور بلوچستان کی سرحدوں پر ہے،لیکن وفاقی حکومت بڑے ٹرالرز کو گہرے سمندر میں فشنگ کے لائسنس جاری کر رہی ہے اور ان ٹرالرز کے پاس اتنے مضبوط جال ہیں کہ وہ چھوٹے سے چھوٹی مچھلیاں اور مچھلیوں کے انڈے تک اٹھالیتے ہیں اور وہ انہیں مچھلیوں کی خوراک بنانے والی فیکٹریوں کو بیچ دیتے ہیں،انہوں نے کہا کہ اس قسم کی سوچ سے قومی خزانے کوتو بہت بڑا منافع ملتا ہے لیکن ہزاروں کی تعداد میں مچھیرے بیروزگار ہوجاتے ہیں، کیونکہ انکے لئے سمندر میں مچھلیوں کے ذرائع باقی نہیں بچتے،اس قسم کی پالیسی سندھ اور بلوچستان کی عوام کے خلاف ہے اور اس میں کسی بھی صورت تبدیلی کرنی چاہے،صوبائی وزیر جام خان شورو نے کہا کہ صوبے میں 12لاکھ مچھیرے کام کر رہے ہیں،جوکہ سمندر میں کوئی مچھلی باقی نہ بچنے کی وجہ سے غریب سے غریب تر ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے مچھلیوں سے خوراک بنانے والی مختلف فیکٹریوں کو بھی لائسنس دیئے ہوئے ہیں،جوکہ مچھلیوں کا بڑے پیمانے پر شکار کررہی ہیں۔مچھلیوں سے خوراک بنانے کیلئے لاکھوں کی تعداد میں چھوٹی مچلھیاں درکار ہوتی ہیں اور ہمارے فشنگ کے ذرائع تباہ کرنے کے یہی ذمہ دار ہیں۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اپنی زمینی حدودکا جائزہ لے ،کیونکہ وہ یہاں سے ٹیکس وصول کر رہی ہے اور گہرے سمندر میں فشنگ کیلئے ٹرالرز کو اور مچھلیوں کی خوراک بنانے والی فیکٹریوں کو لائسنس دے رہی ہے۔

لیکن انہوں نے آج تک بندر گاہ کی ترقی کیلئے ایک اسکیم بھی نہیں دی۔وفاقی وزیر سردار سکندر حیات بوسن نے کہا کہ زمینی حدود بہت ہی واضع ہیں اور زمین سے سمندر کے 12ناٹیکل میلوں تک کا علاقہ صوبائی حکومت کا ہے اور 12سے 20ناٹیکل میل پانی کو بفرزون قرار دیا گیا ہے اور حتیٰ کہ اس علاقے میں بھی صوبائی حکومت کو آپریشن کرنے کی اجازت ہے۔جبکہ 20سے 200ناٹیکل میل پانی کا تعلق وفاقی حکومت سے ہے۔

صوبائی وزیر جام خان شورو نے کہا کہ فشنگ کرنے کے حوالے سے حدود کی تقسیم کا اختیار صوبائی حکومت کو ملنا چاہیے،کیونکہ سندھ حکومت مچھیروں کی دیکھ بھال کرتی ہے،بندرگاہ اور کشتیاں تیار کراتی ہے،جبکہ وفاقی حکومت نے اس شعبے کی ترقی کیلئے کبھی ایک پیسہ تک نہیں دیا۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت وفاقی حکومت کورنگی فش ھاربر کو سندھ حکومت کے حوالے کرنے کی پابند ہے،لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ مختلف بہانے کرکے ابھی تک ھاربر پر اپنا قبضہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے یہ معاملہ مشترکہ مفاداتی کاؤنسل میں بھی اٹھایا تھا اور اس کیلئے مزید بحث مباحثہ بھی ہوا تھا۔ اس پر وفاقی وزیر سکندر حیات بوسن نے کہا کہ نئی فشنگ پالیسی کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین صوبائی مشاورتی اجلاس ہونا چاہیے۔وزیراعلیٰ سندھ نے اس کیلئے صوبائی وزیر جام خان شورو، چیف سیکریٹری سندھ محمد صدیق میمن اور سیکریٹری فشریز پر مشتمل تین رکنی صوبائی ٹیم کی تجویز دی جوکہ وفاقی ٹیم کے ساتھ فشنگ پالیسی مرتب کرنے کے حوالے سے میٹنگ کرے گی۔