پی ایس ڈی پی کی مد میں وزارتوں کو مختص 580ارب روپے سے اب تک405ارب کی رقم ادا کی جا چکی ہے،رواں مالی سال میں واپڈا کا بجٹ 128ارب مختص ہے، فاٹا میں امن و امان کا مسئلہ کی وجہ سے ترقیاتی فنڈ استعمال نہیں کیا جا سکا، ضرب عضب کی کامیابی کے بعد اب پی ایس ڈی پی اور اے ڈی بی کے تمام فنڈز استعمال کیے جائیں گے، خنجراب سے قراقرم ہائی وے کی اپ گریڈیشن شروع ہو چکی ہے ،عطاء آباد جھیل کے 28کلو میٹر سیلاب میں بہہ جانے والی سڑک بحال کر دی گئی ، راہداری منصوبے کے تحت برہان سے حویلیاں موٹر وے کا افتتاح 17جون کو کیا جائے گا

سینیٹ قائمہ کمیٹی کوسیکرٹری وزارت منصوبہ بندی،چیئرمین این ایچ اے شاہد اشرف تارڑ و دیگر کی بریفنگ

جمعرات 26 مئی 2016 22:32

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔26 مئی۔2016ء ) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے منصو بہ بندی و ترقی کو آگا ہ کیا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں پی ایس ڈی پی کی مد میں وزارتوں کو مختص کے گئے 580ارب بجٹ سے اب تک405ارب کی رقم مختلف وزارتوں کو ادا کی جا چکی ہے،رواں مالی سال میں واپڈا کا بجٹ 128ارب مختص ہے، فاٹا میں امن و امان کا مسئلہ کی وجہ سے ترقیاتی فنڈ استعمال نہیں کیا جا سکا، ضرب عضب کی کامیابی کے بعد اب پی ایس ڈی پی اور اے ڈی بی کے تمام فنڈز استعمال کیے جائیں گے، خنجراب سے قراقرم ہائی وے کی اپ گریڈیشن شروع ہو چکی ہے ،عطاء آباد جھیل کے 28کلو میٹر سیلاب میں بہہ جانے والی سڑک بحال کر دی گئی ہے، راہداری منصوبے کے تحت پہلے منصوبہ برہان سے حویلیاں تک ساٹھ کلومیٹر کی موٹر وے کا افتتاح 17جون کو کیا جائے گا،کمیٹی نے این ایچ اے کی کارکردگی کو سراہا اورسفارش کی کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبوں میں پاکستانی ٹھیکیداروں کو بھی شامل کیا جائے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار سیکرٹری وزارت منصوبہ بندی،چیئرمین این ایچ اے شاہد اشرف تارڑ و دیگر نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔جمعرات کوسینیٹ قائمہ کمیٹی برائے منصو بہ بندی و ترقی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر طاہر حسین مشہدی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ اس مالی سال کے اختتام پر ابھی تک صرف 70فیصد کے فنڈز ہی استعمال ہو سکے ہیں۔

وزارت منصوبہ بندی اور وزارت خزانہ باہمی مشاورت کے ذریعے منصوبوں اور منصوبوں کیلئے فنڈز کی تقسیم کا میکنزم بجٹ سے قبل تیار کیا کریں۔اجلاس میں رواں مالی سال کے ترقیاتی بجٹ پر بریفنگ میں سیکرٹری وزارت منصوبہ بندی نے آگاہ کیا کہ پی ایس ڈی کی مد میں وزارتوں کو580ارب کا بجٹ مختص کیا گیا۔اب تک405ارب کی رقم مختلف وزارتوں کو دے دی گئی ہے۔

رواں مالی سال میں واپڈا کا بجٹ 128ارب مختص ہے۔رقوم کی فراہمی میں آنے والی مشکلات پر وزارت خزانہ کو آگاہ کیا گیا ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ۔سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ایوان بالا میں بھی کم ترقی یافتہ علاقہ جات کے فنڈز جاری نہ کرنے اور سندھ بلوچستان کے پی کے کی بھی اس بارے میں شکایات پر معاملہ اٹھا یا گیا تھااور کہا کہ آذاد کشمیر گلگت بلتستان میں 95فیصد پی ایس ڈی پی استعمال نہیں ہوا۔

پانی کے ڈیموں اور واپڈا کے حوالے سے بھی معاملہ ایوان بالا میں اٹھایا گیا اور کہا کہ فاٹا میں صرف6فیصد پی ایس ڈی پی فنڈ جاری ہوا اور جنوبی پنجاب میں بھی33.5فیصد جاری ہوا۔ وزارتوں کو دیئے جانے والے ترقیاتی فنڈز کی خصوصی نگرانی ہونی چاہئے تاکہ پیسہ ضائع نہ ہو۔ایڈیشنل سیکرٹری وزارت ظفر حسن نے آگاہ کیا کہ فاٹا میں امن و امان کا مسئلہ تھا ۔

ساؤتھ اور نارتھ وزیرستان خاص طور پر فوجی آپریشن کی وجہ سے بند تھا ۔ ضرب عضب کی کامیابی کے بعد پی ایس ڈی پی اور اے ڈی بی کے امید ہے کہ تمام فنڈز استعمال ہو جائینگے ۔ سینیٹر سعود مجید نے کہا کہ فاٹا سیکرٹریٹ سے تفصیلات منگوائی جانی چاہئیں او رکہا کہ صوبوں اور وفاقی کے مشترکہ منصوبوں میں حصہ داری کی وجہ سے مسائل آتے ہیں ۔شیئرنگ فارمولا پر دونوں طرف سے پورا عمل ہونا چاہئے۔

وزارت کی طرف سے آگاہ کیا کہ پی ایس ڈی پی فنڈز جاری کرنے کا میکنزم پہلی دو قسطیں 20فیصد اور بقیہ دو قسطیں 30،30فیصد کے فارمولے کے مطابق جاری کی جاتی ہیں۔ سینیٹر سعید الحسن مندو خیل نے کہا کہ صوبوں کو ملنے والے بجٹ وفاق کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔وزارت کی طرف سے بجٹ کے غلط اعدا د وشمار دینے پر کمیٹی ممبران برہم۔غلط اعداد و شمار دینے پر وضاحت کی جائے۔

جس پر کہا گیا کہ کچھ منصوبوں کیلئے رکھی گئی رقوم استعمال ہو نے تک وزارت بجٹ کے صفحات پر موجود ر ہتی ہے ۔وزارت کے حکام نے کمیٹی سے کہا کہ منصوبوں کو بنانے سے قبل وزارت خزانہ کا بجٹ مختص ہونا چاہئے تاکہ منصوبوں کے فنڈز بروقت جاری کئے جا سکیں۔کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ وزارت منصوبہ بندی اور وزارت خزانہ کا مشترکہ اجلاس منعقد کیا جائے تاکہ فنڈز جارئی کرنے کا میکنزم بن سکے۔

سینیٹر سعود مجید نے کہا کہ پنجاب میں وزیر اعلی نے جس منصوبے کے فنڈز جاری کرنے ہوتے ہیں وزارت خزانہ اس سے اگلے روز فنڈزمتعلقہ محکمے کو جاری کر دیتی ہے۔وفاق میں بھی ا یسا نظام بنایا جائے ۔این ایچ اے کے چیئرمین شاہد اشرف تارڑ نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کیلئے مختص فنڈز پر بریفنگ دیتے ہوئے آگاہ کیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری میں 29انڈسٹریل زون بنائے جا رہے ہیں ۔

وزیر اعظم نے اقتصادی راہداری روٹ پر بننے والے منصوبوں پر بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین کی سربراہی میں کمیٹی بنائی تھی جس میں صوبوں کے چیف سیکرٹری اور وفاقی کے سرکاری نمائندے شامل تھے کمیٹی نے پنجاب میں ملتان ،رحیم یار خان ،ڈی جی خان ،راولپنڈی میانوالی ،کے پی کے میں مانسہرہ ،نوشہرہ ،حطار،غازی، ڈی آئی خان ،کوہاٹ،کرک،بلوچستان میں تربت ،خضدار ،دشت،کوئٹہ ،بوستان،قلعہ سیف اﷲ ژوب اور گوادر میں خصوصی انڈسٹریل زون،سندھ میں کراچی انڈسٹریل زون کراچی ،انڈسٹریل زون پورٹ قاسم کراچی ،ماربل سٹی،جبکہ گلگت ،بلتستان میں مکپن داس ،اسلام آباد میں ماڈل آئی سی ٹی اکنامک زونز بنائے جا رہے ہیں۔

ایڈیشنل سیکرٹری نے آگاہ کیا کہ چین او رپاکستان کے درمیان انڈسٹریل زون کے طریقہ کار طے ہو گیا ہے شروع میں ہرصوبے میں ایک اندسٹریل سٹیٹ بنے گی ۔سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ افرادی قوت کی کمی نہیں لیکن قابلیت اور تربیت بڑھانے کیلئے ذیادہ سے ذیادہ ا فراد تیار کئے جائیں تاکہ اس بڑے منصوبے سے عوام کو ذیادہ فائدہ مل سکے ۔فاٹا میں اکنامک زون نہ بننے پر اراکین کی شدید برہمی کا اظہار۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ کیا فاٹا پاکستان کا حصہ نہیں ہے ۔فاٹا میں بے تحاشا قدرتی ذخائر موجود ہیں فاٹا کے ساتھ ملحقہ شہری علاقوں کو جوڑ کر اقتصادی راہداری میں شامل کیا جائے۔سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ فاٹا کسی صوبے کا حصہ نہیں لیکن وفاق فاٹا کو بھی پاک چین اقتصادی راہداری میں شامل کرے ۔شاہد اشرف تاڑر نے کہا کہ سی پیک پر صوبوں سے مانگی گئی تجاویز میں فاٹا شامل نہیں تھا ۔

فاٹا راہداری کے منصوبے میں اہم اہمیت رکھتا ہے۔اگر یہ بھی منصوبے میں شامل ہوتا تو فاٹا کے عوام کو بھی سہولیات میسر آ سکتی ہیں۔شاہد اشرف تارڑ نے بتایا کہ خنجراب سے قراقرم ہائی وے کی اپ گریڈیشن شروع ہے ۔عطاء آباد جھیل کے 28کلو میٹر سیلاب میں بہہ جانے والی سڑک بحال کر دی گئی ہے۔شاہراہ قراقرم پر مرمتی کا کام مکمل کر لیا گیا ہے سات کلو میٹر کی سرنگیں بھی بنائی گئی ہیں راہداری منصوبے میں پہلا منصوبہ برہان سے حویلیاں تک ساٹھ کلومیٹر کی موٹر وے ہے جسکا افتتاح جون17میں ہو گا۔

حویلیاں سے تھاہ کوٹ کی شاہراہ چھ رویہ ہو گی اور اس میں آٹھ کلو میٹر کی سرنگیں بھی شامل ہیں۔تھاہ کوٹ سیکشن پر ایک ا رب30کروڑ مالیت کا خرچ آئیگا فاصلہ120کلو میٹر ہے۔ڈی آئی خان سے برہان تک280کلو میٹر کی شاہراہ125ارب کی مالیت سے تیار ہو رہی ہے۔پیکج ٹو میں دریائے سندھ پر بننے والوں پلوں کی وجہ سے کام رکا ہوا ہے۔ژوب سے کوئٹہ کی 331کلو میٹر کی شاہراہ کوریا اور امریکہ کی کمپنیاں کام کرینگی۔

فزیبلٹی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے۔2018تک اقتصادی راہداری منصوبے میں مغربی اور مشرقی روٹوں پر مواصلات کا نظام مکمل کر لیا جائیگا۔حیدر آباد سکھر کا 296کلو میٹر شاہراہ پر کام فنڈز نہ ہونیکی وجہ سے تاخیر کا شکار ہیں ۔لیاری ایکسپریس وے اس سال کے آخر تک کھول دی جائیگی۔مغربی روٹ کے حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ28مئی2015کی آل پارٹی کانفرنس کے اعلامیہ کے مطابق دی آئی خان سے برہان کی فزیبلٹی این55سے 22کلو میٹر ڈی آئی خان میا نوالی،پنڈی گھیپ ہکلا،ترجیحی بنیادوں پر پانچ پیکج میں تقسیم ،وزیر اعلی خیبر پختون خواہ نے یارک سے دریائے سندھ کو دو رویہ کرنے اور کوہاٹ سے جنڈ اور جنڈ سے پنڈی گھیب کی فزیبلٹی سٹڈی کیلئے کہا سٹڈی شروع کر دی گئی ہے۔

ڈی آئی خان سے پشاور 323کلو میٹر میں سے164کلو میٹر دو رویہ نہ تھا جسے دو رویہ اور اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔چین سے ڈی آئی خا ن ژوب سے کوئٹہ تک کی رضامندی لے لی گئی ہے۔اور وزیر اعظم کے حکم سے چا ر رویہ بھی کر رہے ہیں ۔ژوب سے گومل زام تک فزیبلٹی بھی بنائی جا رہی ہے۔چیئرمین این ایچ اے نے کہا کہ بلوچستان کیلئے ژوب سے کوئٹہ بسیمہ خضدار کو بھی منصوبوں میں شامل کر لیا گیا ہے ۔

سینیٹر سعید الحسن مندو خیل نے کہا کہ ژوب میر علی خیل ،ڈی آئی خان کو چار رویہ کیا جائے ۔سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ شاہراہوں کے ساتھ زمین جلد حاصل کی جائے لوگوں نے بلڈوزروں کے ذریعے زمین ہموار کرناا ور تعمیرات شروع کر دی ہیں جس پر چیئرمین این ایچ اے نے کہاکہ وزیر اعلی بلوچستان کو خط لکھیں گے اور فوراسیکشن فور لگا کر سو میٹر کا رائٹ آف وے حاصل کرینگے۔

سراب سے خوشاب کا 450کلو میٹر کام تیزی سے جاری ہے ،پنجگور سے ناگ مکمل ہو گیا ہے ۔پنجگور خوشاب2016میں افتتاح کر لیا جائیگا۔گوادر سے کوشاب 194کلو میٹر مکمل کرنے کے بعد افتتاح کر لیا گیا ہے ۔گوادر خوشاب رتو ڈیرو کا بھی اہم منصوبہ ہے جس پر سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ یہ سنٹرل روٹ ہے آئندہ ویسٹرن نہ لکھا جائے جس پر چیئرمین این ایچ اے نے وضاحت کی کہ اے پی سے اعلامیہ میں مغربی روٹ ہے۔

سینیٹر سعید الحسن مندو خیل نے ملتان سے سکھر،فیصل آباد سے ملتان روٹ پر قیمتوں کے فرق کا معا ملہ اٹھایا جس پر آگاہ کیا گیا کہ پیپرا کے طریقہ کار کے تحت ٹینڈر ہوتے ہیں ،مشرقی روٹ کے حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ گوجرہ شور کوٹ پر کام جاری ہے شور کوٹ خانیوال دو سال میں مکمل ہو گا ۔سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں ہائی وے کی سڑکوں پر حادثات میں اضافہ ہو رہاہے موٹر وے کی پٹرولنگ بڑھائی جائے ۔

راجن پورمیں حادثات ذیادہ ہو رہے ہیں ۔سخی سرور سے آگے مظفر گڑھ سے ملتان ،ڈی جی خان پر بھی توجہ دی جائے ۔چیئرمین این ایچ اے نے بتایا کہ راکھی گھاٹ روٹ کی پروکیورمنٹ مکمل ہو چکی ہے نظر ثانی شدہ پی سی ون منظور ہو چکا ہے۔کمیٹی اجلاس میں سفارش کی گئی کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبوں میں پاکستانی ٹھیکیداروں کو بھی شامل کیا جائے۔کمیٹی نے این ایچ اے کی کارکردگی کو سراہا۔کمیٹی اجلاس میں سینیٹرز عثمان خان کاکڑ،سعید الحسن مندو خیل ،محسن لغاری،مفتی عبد الستار،سعود مجید،سلیم مانڈوی والاکے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت ظفر حسن،چیئرمین این ایچ اے شاہد اشرف تارڑ اور اعلی حکام موجود تھے۔