پاکستانی آم 57 ممالک بشمول یورپی یونین کو درآمد کر کے اربوں روپے کا زرمبادلہ کمایا جاتا ہے، سکندر حیات بوسن

باغات کی صورتحال بہتری لانے ،سروے سے 2 سال میں ہم یورپی یونین کی پابندی سے باہر نکل آئے ہیں، وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈریسرچ کا سیمینار سے خطاب

جمعرات 26 مئی 2016 21:24

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔26 مئی۔2016ء) وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ سکندر حیات خان بوسن نے کہا ہے کہ پاکستان سالانہ اربوں روپے کا زرمبادلہ آم کی درآمد سے کماتا ہے پاکستانی آم 57 ممالک بشمول یورپی یونین کو درآمد کیا جاتا ہے، باغات کی صورتحال بہتری لانے اور ان کے سروے سے 2 سال میں ہم یورپی یونین کی پابندی سے باہر نکل آئے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ہوٹل میں آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجی ٹیبل ایکسپورٹ امپورٹ مرچنٹ ایوسی ایشن کی جانب سے’’مینگو ایکسپورٹ اویئرنس ‘‘ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر چیئر مین پی ایف وی اے وحید احمد، سی ای او ٹی ڈیپ ایس ایم منیر، ڈائریکٹر ٹیکنکل ڈی پی پی اعظم خان اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

(جاری ہے)

سکندر حیات بوسن نے کہا ہے کہ ملک کی خاطر نیک نیتی سے کام کرنے کے ساتھ اپنا فرٖض بھی نبھایا جائے تو ملک ترقی کرسکتا ہے۔

کاشتکار اور ایکسپوٹرز کی آگاہی کے لئے مینگو سیزن میں مزید سیمینار منعقد کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نئے بجٹ کے لیے ہم پیداواری لاگت کم کرنے کے لئے تجاویز تیار کرلی ہیں جن سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ملک میں تقریباً 95 فیصد چھوٹے کاشتکار ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کا آم بطور برانڈ ایمبسڈر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ اچھی کوالٹی کے آم کی پیداوار پر لاگت زیادہ آتی ہے تو اس کی قیمت بھی مارکیٹ اچھی ملتی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ چھوٹے کاشتکار کم زرعی رقبہ کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں ان کی مشکلات کو کم کرنے کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ سکندر حیات بوسن نے کہا کہ اس ملک کا مستقبل ہارٹیکلچر ہے۔ انہوں نے کہا کہ آم کے سیزن کے بعد قومی سطح پر زرعی کانفرنس منعقد کریں گے ۔

سکندر حیات بوسن نے کہا ہے کہ کپاس کی کاشت میں پیداواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے موجود سیزن میں کاشتکاروں نے 30 فیصد کپاس کی کاشت کم کی ہے۔ اس موقع پر آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجٹیبل ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹ ایسوسی ایشن )پی ایف وی اے) کے چیئرمین وحید احمد نے کہا کہ ہمیں زرعی پیداوربڑھے اور پیداواری لاگت کم کرنے کے لئے 10 سالہ منصوبہ بندی کرنے کے لیے نیشنل کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہیے تاکہ ہم تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بعد ایک جامع پالیسی مرتب کرسکیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ ہماری پیدوار کم ہورہی ہے اور پیداوری لاگت بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے ہم مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا ہے کہ حکومت کوچاہیے کہ وہ سیٹرس کی بہتر پیداوار کے لیے ایک بورڈ کا قیام عمل میں لائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ریسرچ پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم بہتر پیداور حاصل کر سکیں۔