تشدد نہ مرد کرسکتاہے اور نہ ہی عورت، اجتماعی زندگی میں اصلاح کیلئے اگر شوہر کو ترحید کی اجازت ہے تو پھر خاتون کو بھی غیر شرعی فعل پر تنبیہ کا حق حاصل ہے،

پنجاب حکومت نے آئین سے انحراف کر کے اور آئینی تقاضے پورے کئے بغیر بل اسمبلی سے منظور کروایا، شوہر بیوی کی حاصل مذہبی آزادی سلب نہیں کرسکتا، خاتون اپنی مرضی سے دفاعی معاملات یا جہاد میں شریعت کے دائرے کے اندر ر ہ شرکت کرسکتی ہے، ازدواجی زندگی میں حقوق ادا نہ کرنے پر شوہر کوبیوی پر ہرگز تشدد کاحق نہیں، بستر الگ کرسکتاہے، مرد مرتد ہونے پر واجب القتل ہے بچوں کے حقوق بارے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے بھیجے گئے بل کی تشکیل مکمل کرلی،آئندہ اجلاس میں غور خوض ہوگا،،خواتین اور مردوں کیلئے الگ الگ تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانامحمد خان شیرانی کا پریس کانفرنس سے خطاب

جمعرات 26 مئی 2016 19:22

تشدد نہ مرد کرسکتاہے اور نہ ہی عورت، اجتماعی زندگی میں اصلاح کیلئے ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔26 مئی۔2016ء) چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانامحمد خان شیرانی نے کہا ہے کہ مذہب اسلام میں تشدد نہ مرد کرسکتاہے اور نہ ہی عورت کرسکتی ہے،اجتماعی زندگی میں اصلاح کیلئے اگر شوہر کو ترحید کی اجازت ہے تو پھر یہ حق خاتون کو بھی حاصل ہے کہ وہ غیر شرعی فعل پر شوہر کو تنبیہ کرسکتی ہے،ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرد اور خواتین کیلئے الگ الگ تعلیمی ادارے قائم کرے،ہر خاتون کو مذہبی آزادی حاصل ہے شوہر اس کی آزادی کو سلب نہیں کرسکتا،خاتون اپنی مرضی سے دفاعی معاملات یا جہاد میں شریعت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے شرکت کرسکتی ہے،ازدواجی حقوق میں اگر بیوی شوہر کی بات نہ مانے تو پھر معاشی ذمہ داری شوہر پر عائد نہیں ہوتی،شریعت کے مطابق خاتون کسی بھی کاروبار میں حصہ لے سکتی ہے۔

(جاری ہے)

جمعرات کو اسلامی نظریاتی کونسل کے 2روزہ اجلاس کے بعد بریفنگ دیتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ پارلیمنٹ اگر کوئی قانون وضع کرے تو انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ اس پر عملدرآمد کروائے،خیبر پختونخوا کی حکومت نے تحفظ حقوق نسواں بل اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا مگر پنجاب حکومت نے آئین سے انحراف کرتے ہوئے اور آئینی تقاضے پورے کیئے بغیر بل اسمبلی سے منظور کروایا،یہ صریحاً آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے،جس کو اسلامی نظریاتی کونسل نے مسترد کیا اور آئین کی روح سے کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اسلام اور آئین پاکستان سے متصادم قوانین کو چیلنج کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اس بل کی تصحیح کیلئے اپنا حقوق نسواں بل تیار کیا ہے جو اسلام اور آئین کی روح کے مطابق ہے اور کونسل کی مشاورت اس پر جاری ہے،اسلام نے خواتین کو بہت زیادہ حقوق دیئے ہیں،کوئی بھی خاتون مرتد ہوجائے تواس کیلئے قتل کی سزا نہیں ہے اگر مرد مرتد ہوجائے تو تین دن کے اندر اگر وہ رجوع نہ کرے تو واجب القتل ہے۔خاتون جتنی بھی مالدار ہو اس کی تمام معاشی ذمہ داریاں اس کے شوہر پر عائد ہوتی ہیں اور وہ شریعت کے مطابق کاروبار میں بھی حصہ لے سکتی ہے۔

مولانا شیرانی نے کہاکہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بل کونسل کو بھیجا اس حوالے سے بھی کونسل نے بل کی تشکیل مکمل کرلی ہے اور آئندہ اجلاس میں اس پر بھی غور خوض ہوگا۔مولانا شیرانی نے کہاکہ دفاعی معاملات میں خواتین حصہ نہیں لے سکتیں مگر اپنے دفاع کیلئے وہ تربیت حاصل کرسکتی ہیں،معاشی مسائل کو حل کرنے کیلئے خاتون کسی بھی معاشی مشغلے کو اختیار کرسکتی ہے،مگر وہ شریعت سے متصادم سے نہ ہو کوئی بھی خاتون کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو اپنے مذہبی معاملات میں وہ آزاد ہے اور شوہر اس پر کسی بھی قسم کا جبر نہیں کرسکتا،خواتین اور مردوں کیلئے الگ الگ تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیمی ادارے الگ طور پر قائم کرے،اگر ازدواجی زندگی میں بیوی خاوند کے حقوق پورے ادا نہ کرے تو شوہر کو یہ حق ہرگز نہیں پہنچتا کہ وہ اس پر تشدد کرے بلکہ شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا بستر الگ کرسکتاہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے قرآن پاک کے عثمانی رسم الخط پر مکمل اتفاق کیا ہے،قرآن پاک کی صحیح انداز میں طباعت کیلئے بھی سفارشات مرتب کی ہیں۔کونسل نے اتفاق کیا ہے کہ رسم الخط امردانی ہوگا کیونکہ برصغیر میں یہ ہی رسم الخط مروج ہے،ابن نجاح رسم الخط خالصتاً عربیوں کیلئے ہے۔

متعلقہ عنوان :