سینیٹ قائمہ کمیٹی انفارمیشن ٹیکنالوجی کا پی ٹی سی ایل کی نجکاری اور منیجمنٹ کنڑول اتصلات کو دینے کے معاملے کی وضاحت کیلئے پی ٹی سی ایل انتظامیہ کی قائمہ کمیٹی اجلاسوں میں ؂مسلسل عدم شرکت پر سخت برہمی کا اظہار

جنہو ں نے معاہدہ کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی، 26 فیصد حصص کے مالک حکومت پر بھاری ہیں نہ حساب کتاب نہ پوچھ گچھ نہ طلبی، کمیٹی کا استحقاق بھی مجروح کیا جارہا ہے، چیئرمین کمیٹی سینیٹر شاہی سیدکا خطاب

بدھ 25 مئی 2016 21:25

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔25 مئی۔2016ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے چیئرمین سینیٹر شاہی سید نے پی ٹی سی ایل کی نجکاری اور منجمنٹ کنڑول اتصلات کو دینے کے معاملے کی وضاحت کیلئے پی ٹی سی ایل انتظامیہ کی قائمہ کمیٹی اجلاسوں میں نوٹس کیے جانے کے باوجود مسلسل عدم شرکت پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنہو ں نے معاہدہ کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی 26 فیصد حصص کے مالک حکومت پر بھاری ہیں نہ حساب کتاب نہ پوچھ گچھ نہ طلبی کمیٹی کا استحقاق بھی مجروح کیا جارہا ہے ۔

وہ بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں کمیٹی اجلاس کی صدارت کررہے تھے ۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ قائمہ کمیٹی پی ٹی سی ایل کو کیا اجلاس میں طلب نہیں کر سکتی ا س بات کی وضاحت ہونی چاہیے پی ٹی سی ایل انتظامیہ اجلاس میں کیوں شرکت نہیں کرتی ۔

(جاری ہے)

سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ پی ٹی سی ایل معاملے پر ان کیمرہ اجلا س میں تفصیلات لی جانی چاہیے اور دیکھانا چاہیے کہ قوم کا پیسہ ضائع ہو رہا ہے جسے کس طرح تحفظ دیا جاسکتا ہے ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزارت آئی ٹی کو پی ٹی سی ایل انتظامیہ کو اجلاس میں شرکت کیلئے لکھا گیا تھا لیکن شرکت نہیں کی جارہی پی ٹی سی ایل کے پینشنرز اور بیواؤں کو ادائیگی کرنے کیلئے سفارش کی گئی اور سپریم کورٹ میں اپیل نہ کرنے کی بھی ہدایت دی گئی لیکن سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی ۔چیئرمین کمیٹی نے پچھلے سال کی کارکردگی رپورٹ کے حوالے سے بھی ناراضگی کا اظہا رکرتے ہوئے کہا کہ سفارشات پر وزار ت ٹس سے مس نہیں ہوئی قانونی طریقے سے لڑنا ہے فی الحال کمیٹی رپورٹ پاس کر دے تاکہ ایوان میں پیش کر دی جائے ۔

سینیٹر عثمان سیف اﷲ نے کہا کہ پی ٹی سی ایل کو کمیٹی اجلا س میں بلوایا جا سکتا ہے نہیں آتے تو کارروائی بھی کی جاسکتی ہے سینیٹر سعید الحسن مندوخیل نے کہا کہ اتصلات کے ساتھ معاملات طے ہوگئے تھے 5 سو ملین دینے پر راضی تھے اتصلات کو بھی بلوا لیا جائے اور بیٹھ کر حل نکالا جائے ۔سینیٹر تاج آفریدی نے کہا کہ پی ٹی سی ایل اور اتصلات کو کمیٹی اجلاس میں بلوایا جانا چاہیے سیکرٹری وزارت رضوان شبیر خان نے کہا کہ بورڈ آف ڈائریکٹر اور شیئر ہولڈرز کے درمیان معاہدہ نجکاری کمیشن نے کیا نجکاری کمیشن ہی ذمہ دارہے بورڈ آف ڈائریکٹر میں صرف پالیسی کا فیصلہ ہوتا ہے منیجمنٹ اتصلات سے پاس ہے این ٹی سی حکام نے آگاہ کیا کہ ادارہ خود مختار ہے حکومتی اداروں کو ٹیلی کمیونیکیشن سروسز مہیا کی جاتی ہیں لوکل کال کی آمد و رفت میں سے پی ٹی سی ایل اور این ٹی سی کو نصف نصف ملتا ہے وائپ سروس مفت دے رہے ہیں ۔

سینیٹر رحمان ملک نے سوال اٹھایا کہ موبائل یا پی ٹی سی ایل کے ساتھ رابطے سے کنتی آمدن ہوتی ہے اور کہا کہ مشرق وسطیٰ جہاں زیادہ تر غریب پاکستانی ہیں کیلئے سستی سہولت کا بندوبست بھی کیا جائے۔این ٹی سی حکام نے مزید کہا کہ خود کماتے ہیں جس میں اخراجات کیے جاتے ہیں پورٹ ایبل سسٹم متعارف کرایا جارہا ہے جو کہیں بھی استعمال کیا جا سکے گااور کہا کہ وائی فائی سروس حکومت این ٹی سی کے ذریعے ملتی ہے کمیٹی کی طرف سے این ٹی سی کی کارکردگی کو سراہا گیا ۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن حکام نے آگاہ کیا کہ پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے خوف سے ملازمین نے فاؤنڈیشن قائم کی ایک پی وی سی فیکٹری سیٹلائٹ کمیونیکیشن سنٹر بنایا گیا ملازمین کی فلاح کے علاوہ پی ٹی سی ایل کالونیوں کے12 سکولوں میں مفت تعلیم دی جارہی ہے پی ٹی سی ایل کا لیاگیا پانچ لاکھ کا قرض واپس کر دیا گیا ہے کام کرنے کی صلاحیت ہے لیکن کام کم ملتا ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آپ میز کے نیچے سے پیسے نہیں دے سکتے کام کیسے ملے گا۔

حکومت کے محکوموں کو کام دینا چاہیے ٹی آئی پی کے حوالے سے چیئرمین کمیٹی نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 24 سو کنال پر کئی دہائیاں قبل چار منزلہ عمارت بنائی گئی کام نہیں لیا جا سکا 34 سو ملازمین کی ملازمت ختم ہوئی اور ہدایت دی کہ ٹی آئی پی کے عارضی ملازمین کا معاملہ جلد سے جلد حل کیا جائے ۔دکھ کی بات ہے کہ بچوں کو تعلیم دینے والے اساتذہ20/20 سال سے کنٹریکٹ پر بھرتی ہیں ہسپتال ، سکول اور بچوں کے معاملے پر کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے 30 جون سے قبل کوئی شکایت نہ آئے معاملے ختم کریں سیکرٹری وزارت نے آگاہ کیا کہ پی ٹی سی ایل اور ٹی آئی پی انتظامیہ کے درمیان فریم ورک بن گیا ہے کل اجلاس منعقد ہوگا۔

یو ایس ایف انتطامیہ نے آگاہ کیا کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں فون سہولت فراہم کرنے کیلئے فنڈز استعما ل کیا جاتا ہے ۔ٹیلی کام کمپنیوں ڈیڑھ فیصد یو ایس ایف فنڈ میں جمع کراتی ہیں وزارت آئی ٹی یو ایف ایس کمیٹی کو چلاتی ہے اور ا س کی اجازت سے یو ایس ایف منصوبے بنا کر واپس کمپنیوں کو بھیجتی ہے جس کے بعد کھلی نیلامی کی جاتی ہے کمیٹی کا آڈٹ چارٹرڈ آکاؤنٹ کمپنیوں کے علاوہ اے جی پی آر بھی کرتا ہے 2007 سے2015 تک بہاولپو ، لاڑکانہ ، میر پور خاص ، سکھر ، میں منصوبے مکمل کیے گئے تربت مستونگ ژوب میں منصوبے چل رہے ہیں خضدار آوران اور چاغی کے منصوبوں کے ٹینڈ ر کر دیئے گئے ہیں سینیٹر تاج آفریدی نے فاٹا میں یو ایس ایف منصوبے نہ ہونے کا معاملہ اٹھایا جس پر آگاہ کیا گیا کہ فی الحال سروے کیلئے فوج سے اجازت نہیں مل رہی جس پر کمیٹی نے سفارش کی کہ فوج سروے کیلئے یو ایس ایف کی مدد کرے سینیٹر گیان چند نے تھر پارکر میں سہولت فراہمی کا معاملہ اٹھایا سینیٹر رحمان ملک نے جی بی اورآزاد کشمیر کو بھی یو ایس ایف میں شامل کیا جائے ۔

آگاہ کیا گیا کہ جب تھری جی فور جی نہیں آیا تھا تو 3107 چھوٹے شہر پی ٹی سی ایل کے ذریعے برانڈبینڈ پر لانے کا منصوبہ تھا یو ایس ایف کے 840000 صارفین ہیں بلوچستان میں زیادہ تر فائبر آپٹکس لائن ڈال دی گئی ہے مستقبل میں 20 ہزار آباد ی کے شہر یا گاؤں میں بھی فائبر آپٹکس پہنچائیں گے 500 ای سروس سنٹر بنانا چاہیے ہیں اس سال 50 اور اگلے دو سالوں میں 250/250 سینٹرز بنائیں گے جن کی اندازلاگت 12 ارب کے قریب ہوگی ۔

بیت المال کے دفاتر میں خواتین کو بااختیار بنانے کے پروگرا م کے تحت 50 کمپیوٹر لیب بنا دی گئی ہیں ۔ یو ایس ایف فنڈ کمپنیوں کے ڈیڑھ فیصد کے علاوہ باہر سے وصول ہونے والی یا باہر جانے والی موبائل کال سے بھی وصولی ہوتی ہے ۔وزارت خزانہ یا کوئی دوسری وزارت چاہے بھی تو یو ایس ایف کا فنڈ استعمال نہیں کرسکتی جس چیئرمین کمیٹی شاہی سید نے کہا کہ اگر حکومت قرض نہیں لے سکتی یو ایس ایف فنڈ استعمال نہیں کر سکتی تومیڈیا میں خواہ مخواہ کے الزامات جن میں گردشی قرضوں کی ادائیگی اور آصف زرداری ، رحمان ملک کے اکاؤنٹس میں رقم جانے کی وضاحت خود یو ایس ایف کو کرنی چاہیے تھی ۔

سینیٹر عثمان سیف اﷲ نے کہا کہ یو ایس ایف میں آنے والی ڈیڑھ فیصد رقم کمپنیوں کی نہیں موبائل استعمال کرنے والے صارفین سے لی جارہی ہے ۔کمیٹی نے یو ایس ایف کی 30 جون2015 تک کل جمع شدہ رقم اخراجات کی تفصیلات اگلے اجلاس میں طلب کر لیں نیشنل آئی سی ٹی آر این ڈی کی طرف سے آگاہ کیا گیا کہ کمپنیوں کی طرف سے .5 فیصد جمع ہوتا ہے یونیورسٹیوں کے ریسرچرز کو مدد دی جاتی ہے نیشنل ایکو بیشن سینٹر کا بڑا منصوبہ این آئی ٹی عمارت میں سینٹر قائم کریں گے 80 ملین خرچ ہوگا۔

آئی سی ٹی آر این ڈی کے تین سالہ اخراجات اور آمد ن کی تفصیلات بھی اگلے اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ۔ چیئرمین کمیٹی اور ممبران کمیٹی کی رائے تھی کہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کارکردگی عوام کے سامنے آنی چاہیے اربوں تحقیق ترقی کیلئے خرچ ہورہے ہیں لیکن وزارت کی کاردگری سے عوام آگاہ نہیں ۔سینیٹر روبینہ خالد نے یو ایس ایف آئی سی ٹی کے تربیتی مراکز کا کمیٹی دورہ کرنے کی تجویز دی جس پر فیصلہ کیا گیا کہ کمیٹی ان مراکز کا دورہ کرے گی ۔کمیٹی اجلاس میں سینیٹر تاج محمد آفریدی، رحمان ملک ،گیان چند ، عثمان سیف اﷲ خان ، سعید الحسن مندوخیل ، نجمہ حمید ،روبینہ خالد کے علاوہ وزارت اور متعلقہ محکوموں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

متعلقہ عنوان :