ملا اختر ایران میں اپنے خاندان سے مل کر واپس آ رہے تھے،امریکی اخبار کا دعویٰ

امریکی ڈرون ایران پاکستان سرحدی علاقے میں کام نہیں کر سکتا تھا، اسی لیے انٹیلی جنس اطلاعات اور مواصلاتی رابطوں کی جاسوسی کے ذریعے خفیہ اداروں نے ملا منصور کا پتہ لگایا اور سرحدی علاقہ عبور کرنے کے بعد جیسے ہی وہ بلوچستان میں داخل ہوئے انھیں نشانہ بنایا گیا، ملا منصور سفید رنگ کی کرولا گاڑی میں سوار تھے ،’’ وال سٹریٹ جرنل‘‘کی رپورٹ

بدھ 25 مئی 2016 21:15

ملا اختر ایران میں اپنے خاندان سے مل کر واپس آ رہے تھے،امریکی اخبار ..

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔25 مئی۔2016ء) امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کی گاڑی کی نشاندہی اس وقت کی گئی جب وہ ایران میں اپنے خاندان سے ملاقات کر کے واپس آ رہے تھے۔امریکی اخبار’’ وال سٹریٹ جرنل‘‘کی رپورٹ کے مطابق ملا اختر منصور کو پاکستان آتے ہوئے اس علاقے میں نشانہ بنایا گیا جہاں عمومی طور پر ڈرون حملے نہیں ہوتے ہیں۔

وال سٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی ڈرون ایران پاکستان سرحدی علاقے میں کام نہیں کر سکتا تھا۔ اسی لیے انٹیلی جنس اطلاعات اور مواصلاتی رابطوں کی جاسوسی کے ذریعے خفیہ اداروں نے ملا منصور کا پتہ لگایا اور سرحدی علاقہ عبور کرنے کے بعد جیسے ہی وہ بلوچستان میں داخل ہوئے انھیں نشانہ بنایا گیا۔

(جاری ہے)

اخبار کے مطابق ملا منصور سفید رنگ کی کرولا گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔

حکام نے وال سٹریٹ جرنل کو بتایا کہ مسلح ڈرون طیارے افغانستان سے پرواز کرتے ہوئے آئے اور گاڑی کو اس وقت نشانہ بنایا جب طالبان کے رہنما کوئٹہ پہنچنے والے تھے۔وال سٹریٹ جرنل کے مطابق ملا اختر منصور کو بلوچستان میں مارنے کا مقصد پاکستان کو خبردار کرنا ہے کہ امریکہ ضرورت پڑنے پر پاکستان کو بتائے بغیر اس کی سرزمین پر کارروائی کر سکتا ہے۔

ایران نے ان خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملا اختر منصور ایران سے پاکستان میں داخل نہیں ہو رہے تھے۔یاد رہے کہ افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور گذشتہ ہفتے بلوچستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا تھا کہ امریکی ڈرون طیارے پاکستان کی سرحد میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ڈرون حملے کے بعد امریکی صدر براک اوباما اور امریکی دفترِ خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ امریکہ ان شدت پسندوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا جو امریکی افواج کے خلاف براہِ راست حملوں کے منصوبے بندی کرتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان نے اپنی سرزمین پر امریکی ڈرون حملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور پاکستان کے دفتر خارجہ نے اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر کو طلب کر کے امریکی ڈرون حملے کی سختی سے مذمت کی تھی۔