پنجاب اسمبلی ،اپوزیشن کاوزیر اعلیٰ کی موجودگی میں ترقیاتی منصوبوں میں نظر انداز کئے جانے پر احتجاج

وزیر اعلیٰ اس ایوان کو اپنا ایوان سمجھیں اور آیا جایا کریں ،اگر ساتھ لیکر چلنا چاہتے ہیں تو ہم ضرور سوچیں گے ،اگر حکومت سمجھتی ہے فنڈز کیلئے ان کی منتیں کی جائیں تو یہ انکی حسرت ہی رہے گی‘ میاں محمو دالرشید حکومتی اراکین اسمبلی کوترقیاتی سکیموں کیلئے 25،25کروڑ دینے کیلئے کوئی ڈائریکٹو جاری نہیں کیا گیا اسپیکر کاچھ سوالات کے جوابات نہ آنے پر برہمی کا اظہار ،پارلیمانی سیکرٹری کو انکوائری ،ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت

بدھ 25 مئی 2016 18:30

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔25 مئی۔2016ء) پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن نے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی ایوان میں موجودگی کے دوران ترقیاتی منصوبوں میں نظر انداز کئے جانے کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ہم بھیک نہیں اپنا حق مانگ رہے ہیں، اپوزیشن کے مقابلے میں ہارے ہوئے لوگوں کو فنڈز دے کر ہماری توہین نہ کی جائے ،اگر قائد ایوان ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں تو ہم ضرور سوچیں گے تاہم اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ فنڈز کیلئے ان کی منتیں کی جائیں تو یہ انکی حسرت ہی رہے گی ، جبکہ وزیر قانون رانا ثنا اﷲ خان نے کہا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے کہ حکومتی اراکین اسمبلی کوترقیاتی سکیموں کیلئے 25،25کروڑ دینے کیلئے کوئی ڈائریکٹو جاری کیا گیا ہے ، قائد حزب اختلاف تصدیق کر الیں خیبر پختوانخواہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے ہم نے تو پنجاب میں اپوزیشن سے بہت بہتر رویہ روا رکھا ہوا ہے ، اجلاس کے دوران کرپشن کے معاملے پر اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے درمیان شدید گرما گرمی بھی ہوئی ۔

(جاری ہے)

پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز مقررہ وقت دس بجے کی بجائے ایک گھنٹہ کی تاخیر سے اسپیکر رانا محمد اقبال کی صدارت میں شروع ہوا ۔ اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری چوہدری علی اصغر منڈا نے محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈ منسٹریشن سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ۔ اجلاس کے آغازپر ہی اسپیکر رانا محمد اقبال نے چھ سوالات کے جوابات نہ آنے پر پارلیمانی سیکرٹری سے استفسار کرتے ہوئے وضاحت طلب کی اور کہا کہ اس کی انکوائری کرائیں اور آئندہ اجلاس میں رپورٹ پیش کریں کہ ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی گئی ہے جس پر پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ جیسا آپ کا حکم ہے ۔

ڈاکٹر مراد راس نے کہا کہ اس پر سخت ایکشن لیں جس پر اسپیکر نے کہا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ اس پر سخت ایکشن لوں گا۔ سوال کے محرک احسن ریاض فتیانہ نے کہا کہ اس سوال کو کمیٹی کے سپرد کر دیں جس پر اسپیکر نے کہا کہ میں اس پر بات کر چکا ہوں۔ اسپیکر نے پارلیمانی سیکرٹری کو ایک مرتبہ پھر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمت او رمہربانی کریں ، یہ معاملہ ٹھیک نہیں ہے کہ اتنے اتنے عرصے تک جواب نہ آئے ۔

پارلیمانی سیکرٹری نے ڈاکٹر وسیم اختر کے سوال کے جواب میں ایوان کو بتایا کہ حکومت کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق مجموعی طور پر 14956کنٹریکٹ ملازمین سے صرف 4019ملازمین مستقل نہیں ہو سکے تاہم ان سے انکی دستاویزات مانگی ہیں اور انکی تصدیق کا مرحلہ مکمل ہونے پر آئندہ تین ماہ میں میرٹ پر پورا اترنے والے ملازمین کو مستقل کر دیا جائے گا ۔

ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے ملازمین کے علاوہ پیرا میڈیکل سٹاف، نائب قاصد جیسے 150کیٹگری کے ملازمین ہیں انہیں بھی مستقل کیا جائے جس پر پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ نوٹیفکیشن کا جو دائر ہ اختیار ہے اس کے مطابق تمام ملازمین مستقل ہوں گے جہاں تک پنجاب اسمبلی کے ملازمین کا معاملہ ہے تو وہ ہمارے محکمے سے متعلقہ نہیں بلکہ جناب ( اسپیکر ) کی چھتری کے نیچے ہیں۔

جس پر اسپیکر نے ڈاکٹر وسیم اختر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو علیحدہ بتا دوں گا۔ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ ڈیلی ویجز ملازمین عرصہ بیس ، بیس سال سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں لیکن انہیں مستقل نہیں کیا جارہا جس پر اسپیکر نے کہا آپ اس پر قانون سازی کر لیں ۔ پارلیمانی سیکرٹری نے ارشد ملک ایڈووکیٹ کے سوال کے جواب میں کہا کہ کسی بھی سرکاری افسر کوریٹائرمنٹ کے بعد چھ ماہ تک سرکاری رہائشگاہ رکھنے کی اجازت ہوتی ہے لیکن انتہائی اہم وجوہات کی بناء پر ان کی توسیع پر ہمدردانہ غور کیا جاتا ہے ۔

اس حوالے سے متعلقہ اتھارٹی ایک سال کیلئے توسیع دے سکتی ہے لیکن اس کے بعد کا اختیار وزیر اعلیٰ پنجاب کا ہے ۔ معاملہ عدالت میں ہونے پر بات کرنے پر اسپیکر نے ارشد ملک ایڈووکیٹ کو کہا کہ اگر توہین عدالت کا نوٹس آیا تو انشا اﷲ آپ کو ہی آئے گا ۔ پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ ہم پوری تندہی کے ساتھ حکم امتناعی خاج کرانے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔

اسپیکر نے ڈاکٹر وسیم اختر کے سیکرٹری قانون کے عہدے پر تعیناتی کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ معاملہ یہاں زیر بحث نہیں آسکتا میں اپنے آفس میں آپ کو معلومات دیدوں گا۔ ڈاکٹر وسیم اختر نے مائنر پینلٹی کے قانون میں ترامیم کے حوالے سے سوال اٹھایا اور کہا کہ پنجاب میں نا انصافی ہو رہی ہے ۔ جس پر پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ ڈاکٹر وسیم اختر ترامیم لے آئیں ہماری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں ۔

ڈاکٹر وسیم اخترنے کہا کہ جس طرح اسپیکر اور پارلیمانی سیکرٹری نے کہا ہے میں اس پر ترامیم لے کر آؤں گا جس پر اسپیکر نے کہا کہ یہاں جمہوریت ہے اور آپ جمہوری طریقے سے آگاہ یں ۔ ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ جمہوریت ہے لیکن جس طرف رانا ثنا اﷲ کا ہاتھ اٹھ جاتا ہے جمہوریت اس طرف جھک جاتی ہے ۔گزشتہ روز بھی پارلیمانی سیکرٹریز کی عدم موجودگی اور جواب نہ آنے پر متعدد اراکین کی تحاریک التوائے کار موخر کر دی گئیں۔

اجلاس کے دوران پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا بابر حسین نے پنشن فنڈ پنجاب کی سالانہ رپورٹ برائے 2010-11اور 2011-12پر بحث کا آغاز کیا ۔ پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی صدیق خان نے کہا کہ نجی ٹی وی چینل کی ایک روز قبل کی رپورٹ ہے مظفر گڑھ میں پنشنرز کے فنڈز میں 63کروڑ کا گھپلا ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک میں کرپشن سب سے بڑا ایشو ہے ۔ سول ادارے کرپٹ ہو چکے ہیں ، کرپشن اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیے ۔

حکومت کی موجودگی میں پنشنرز کے فنڈز پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے ۔پنجاب حکومت کے ترجمان ورکن اسمبلی زعیم قادری نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ہوتے ہوئے ان معاملات کو ایسے نہیں جانے دیا جاتا ۔ اپوزیشن کو میٹروبس کے بعد اورنج ٹرین سے اپنی صفائی ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔ نیازی سروسز کس کی ہیں ،یہ بابائے آف شور ہیں جس پر اپوزیشن میاں محمود اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے اور بات کرنا شروع کر دی جس پر زعیم قادری نے کہا کہ اگر مجھے بات کرنے نہیں دی جائے گی تو ابھی دو سال باقی ہیں میں قائد حزب اختلاف کو بات نہیں کرنے دوں گا اور میاں محمو دالرشید کی طرف سے مسلسل بولنے پر زعیم قادری نے کہا کہ میں واک آؤٹ کرتا ہوں تاہم وہ باہر جاتے جاتے دوبارہ واپس آ گئے جس پر میاں محمود الرشید نے کہا کہ میری درخواست ہے کہ ان کو وزیر بنادیں کیونکہ حکومت کے دفاع کے باوجود انہیں وزیر نہیں بنایا گیا اور یہ اسی لئے واک آؤٹ کر رہے تھے کہ انہیں وزیر نہیں بنایا گیا ۔

زعیم قادری نے کہا کہ میاں محمود الرشید قائد حزب اختلاف ہیں لیکن انہیں پارلیمانی آداب نہیں ،انہیں آداب سکھائے جائیں۔ یہ اپنے رویے پر معافی مانگیں وگرنہ میں دو سال انہیں بولنے نہیں دوں گا۔جس پر اسپیکر نے کہا کہ انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی ۔ محمود الرشید نے کہا کہ یہ بیباک طریقے سے دفاع کرتے ہیں اس لئے کہا کہ ان کو حلف دلوائیں اگر یہ نہیں چاہتے تو میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں ۔

اس دوران اپوزیشن اور حکومتی بنچوں سے شور شرابہ ہوتا رہا ۔ زعیم قادری نے کہا کہ اس معاملے میں پانچ لوگ گرفتار کئے جا چکے ہیں اور یہ کیس ایف آئی اے کے سپرد کر دیا گیا ہے ۔میاں محمود الرشید نے کہا کہ زعیم قادری کس ترقی کی بات کر رہے ہیں ہیومن ڈویلپمنٹ میں پاکستان کا 144واں نمبر ہے ،چالیس فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ فی کس آمد نی میں ہمارا 133واں نمبر ہے ہم ترقی نہیں تنزلی کی طرف جارہے ہیں ۔

میاں رفیق بحث میں حصہ لے رہے تھے کہ اس دوران پی ٹی آئی کی خاتون رکن اسمبلی شنیلا روت نے کورم کی نشاندہی کر دی اور تعداد پوری نہ ہونے پر پانچ منٹ کے لئے گھنٹیاں بجائی گئی اور تعداد پوری ہونے پر دوبارہ کارروائی کا آغاز کیا گیا ۔ وزیر قانون رانا ثنا اﷲ خان نے پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ یہاں اسمبلی رولز کے ساتھ روایا ت بھی اہمیت کی حامل ہیں ۔

سرکاری کارروائی کے دوران کورم پورا رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن جب عام ممبرا ن کا وقت ، سوالات ، تحاریک التوئے کار اور عام بحث ہو تو اس میں کورم پوائنٹ آف کرنے کی روایت نہیں ہے ۔ اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ تیاری کیا کرے اور حکومت سے سوال و جواب کرے ۔ اسپیکر نے کہا کہ میں اپوزیشن لیڈر سے اس حوالے سے بات کروں گا۔ قائد حزب اختلاف محمود الرشید نے کہا کہ کورم پورا کرنے کیلئے شہباز شریف کو آنا پڑا ہے ۔

قائد ایوان کم از کم اپنے چیمبر میں ہی بیٹھ جایا کریں جس سے کورم پورارہے ۔انکی موجودگی سے سارے نہ صحیح اکا دُکا وزیر آنا شروع ہو گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اراکین سے 25،25کروڑ کی سکیمیں مانگی گئی ہیں اور ہم تھوڑے سے اپوزیشن اراکین برداشت نہیں ہوتے۔حکومت ہمارے مینڈیٹ کی توہین نہ کرے۔ رانا ثنا اﷲ خان نے کہا کہ قائد حزب اختلاف کے بات کرنے کا مقصد اور مدعا یہی تھاکہ آپ ہمار اخیال کریں ہم آپ کا خیال کریں گے لیکن وہ اپنی اداؤں اور حرکات پر بھی غور کریں ۔

دو روز قبل کسانوں کو کہا گیا کہ دھرنا دو اور چنے منگوا لو ں ہم آپ کو کھانا مہیا کرینگے اور پیسے دیں گے۔ اگر آپ کسانوں سے اظہا ریکجہتی کیلئے گئے تھے تو انکے ساتھ مل کر انکے مطالبات حکومت تک پہنچاتے ۔ لیکن انہیں کہا گیا کہ حکومت کی بات نہیں ماننی اور انہیں ورغلاتے رہے ،اس کے بعد وزیر اعلیٰ نے کسانوں سے تین گھنٹے مذاکرا ت کئے اور ان کی تشفی کی او رانکے مسائل کو حل کیا ۔

ہم نے زرعی پیکج سے متعلقہ ایک ،ایک بات کو ڈسکس کیا ہے۔ حکومت زرعی پالیسی کا اعلان کرنے جارہی ہے جس میں ریسرچ کرنے والوں ، ماہرین اور گلی محلے کے کسانوں کی نمائندگی کرنے والوں سے مشاورت کی گئی ہے اور جو زرعی پالیسی دی جارہی ہے اس سے زراعت میں انقلاب آئے گا۔ اپوزیشن تعمیری کردار اد ا کرے اور تخریب کو چھوڑے ۔ اسی دوران وزیر اعلیٰ شہباز شریف ایوان میں آ گئے جس پر حکومتی اراکین نے شیر ، شیر کے نعرے لگا کر ان کا استقبال کیا ۔

محمود الرشید نے کہا کہ میں وزیر اعلیٰ کو ایوان میں خوش آمدید کہتا ہوں ۔ ہم نے وزیر اعلیٰ کی ایوان میں آمد کے حوالے سے ایک قرارداد بھی جمع کرائی ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ میڈیا میں ان کی نظر سے گزری ہو اور یہ آ گئے ہیں جس پر اسپیکر نے کہا کہ وہ میری نظروں سے نہیں گزری ان کی نظروں سے کیسے گزری ہو گی جس پر وزیر اعلیٰ سمیت تمام اراکین نے بھرپور قہقہ لگایا ۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ کی آمد سے ایوان کی کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے ۔ہم نے گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ کے ایوان میں آمد کے بعد چالیس منٹ تک ان کا خطاب سنا لیکن کیا اچھا ہوتا وہ ہمارے جذبات بھی سنتے لیکن وہ الٹے پاؤں واپس چلے گئے ،یہ قائد ایوان کے شایان شان نہیں ۔ اپوزیشن کئی ماہ سے انتظار کر رہی ہے کہ وزیراعلیٰ آئیں اور ہم ان سے دل کی بات کہیں ،اپنے مسائل ان کے سامنے رکھیں ۔

وزیر اعلی نے حلف اٹھانے کے بعد اپنی تقریر میں کہا تھاکہ قدم قدم پر اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلوں گالیکن ساتھ لے کر چلنا ایک طرف تین سال سب کے سامنے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمار ے مقابلے میں ہارے ہوئے لوگوں کو کروڑوں دئیے جارہے ہیں جو ہمار ے گھروں کے سامنے تختیاں لگا رہے ہیں ،یہ ہماری توہین ہے ۔ موجودہ حکومت نے اپوزیشن کو نظر انداز کیا ہے ، اراکین کو اگر پچیس ،پچیس کروڑ کی سکیمیں دی جارہی ہیں تو بطور ممبر یہ سب کا حق ہے اور سب سے یکساں سلوک ہونا چاہیے ،ہم بھیک نہیں حق مانگتے ،ہمارے مینڈیٹ کی توہین نہ کریں ۔

ہارے ہوئے لوگوں کو بھی نہ دیں ہم صبر اور شکر کر لیں گے ،حکومت اس پالیسی پر نظر ثانی کرے ۔ انہوں نے کہا کہ پلوں سڑکوں اور میٹرو ٹرین ضرو ربنائیں لیکن دوسرا پہلو یہ ہے کہ میو ہسپتال کے اندر ایم آر آئی مشین نہیں مریضوں کو سٹی سکین کے لئے کہاں جانا پڑتا ہے ۔ صحت اور تعلیم کے معاملات دگر گوں ہیں ،ایک کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں ۔میں حکومت کے گڈ گورننس کے دعوؤں کے باوجود سینے پر ہاتھ رکھ کر کہتاہوں کہ حالات پہلے سے خراب ہو رہے ہیں۔

وزیر اعلیٰ اس ایوان کو اپنا ایوان سمجھیں اور آیا جایا کریں ۔ہم توقع رکھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ ایوان میں یکساں رویے کا اعلان کریں گے۔ وزیر اعلیٰ کی بجائے رانا ثنا اﷲ خان نے ایوان میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ روزلز میں کوئی پابندی نہیں کہ کسی رکن اسمبلی کو ایوان میں آنے پر پابند کیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں قائد حزب اختلاف سے کہتاہوں کہ اگر ان کے پاس حکومتی اراکین اسمبلی کو پچیس ،پچیس کروڑ کی سکیمیں دینے کے لئے ڈائریکٹو کی کاپی ہے تو مجھے دکھا دیں کیونکہ یہ بات درست نہیں ہے ۔

ہر رکن اسمبلی سے سکیموں کی نشاندہی کرائی جاتی ہے ۔ اس سے قبل اسی طرح کے مطالبے پر جب وزیراعلیٰ کمیٹی روم اے میں آئے تو پی ٹی آئی کی اراکین اپنی قیادت کے خوف کی وجہ سے وزیر اعلیٰ سے نہیں ملے جبکہ (ق) لیگ اور پیپلز پارٹی کے اراکین نے ملاقات کی ۔پی پی اور (ق) لیگ کے لوگوں نے کہا کہ ملاقات کے باوجود ہمیں فنڈز نہیں ملے جس پر میں نے خود وزیر اعلیٰ سے کہا کہ (ق) اور پی پی کے لوگوں کو ترقیاتی سکیمیں دی جانی چاہئیں جس پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ اصولی بات نہیں کہ پی ٹی آئی کو چھوڑ کر (ق) لیگ اور پی پی کو فنڈز دیں ، اگر پی ٹی آئی کے لوگوں کو فنڈز نہ دئیے گئے ایسا کہا جائے گا کہ ہم اپوزیشن کو تقسیم کر رہے ہیں ۔

بجٹ تقریر کے موقع پر اپوزیشن نے کیا کیا ؟،اس کے بعد ایک موقع پر وزیر اعلیٰ کی تقریر کے موقع پر بھی اپوزیشن نے ایسا رویہ اپنایا اور شور شرابہ کیا ،اگر انہوں نے دما دم مست قلندر کرنا ہے اور دھرنا ہی ہونا ہے تو یہ بات مناسب نہیں ۔ ہم اختلاف رائے کو برداشت اور اپوزیشن کی رہنمائی لینا چاہتے ہیں ۔ اسی دوران وزیر اعلیٰ اٹھ کر ایوان سے چلے گئے جس پر میاں محمود الرشید نے کہا کہ آ ج بھی وزیر اعلیٰ کا ویہی رویہ ہے جو قابل افسوس ہے ۔

رانا ثنا اﷲ خان نے کہا کہ میاں محمود الرشید میرے ساتھ میٹنگ کر لیں اور خیبر پختوانخواہ میں اپوزیشن سے روا رکھے جانے والے سلوک کے بارے میں تصدیق کر لیں ،ہم تو خیبر پختوانخواہ کے مقابلے میں اپوزیشن سے ایک درجہ بہتررویہ رکھے ہوئے ہیں اور ہم قائد حزب اختلاف کو ہی منصف بناتے ہیں ۔ آپ کی لیڈر شپ کو آپ پر اعتماد ہونا چاہیے آپ نے خیرات نہیں حق لینا ہے ۔

قائد ایوان سے اجتناب تو دور کی بات ہے اپوزیشن ان سے ملنے کی بھی روادار نہیں ۔ اپوزیشن اپنی قسم کو توڑے اور اگر انہیں کوئی خوف ہے تو اپنی قیادت سے اجازت لے لے ۔ میاں محمود الرشید نے کہا کہ ہمیں کسی کا خوف نہیں ۔ اگر حکومت ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے تو ہم ضرور سوچیں گے لیکن اگر یہ کہتے ہیں کہ ہم فنڈز کیلئے منتیں کریں گے تو یہ ان کی حسرت ہی رہے گی اور ہمیں بیشک فنڈز نہ دیں ۔اجلاس میں رکن قومی اسمبلی نوابزادہ اقبال مہدی کے لئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی ۔اجلاس میں پی ٹی آئی کی خواتین سعدیہ سہیل رانا اور شنیلہ روت نے دو مرتبہ کورم کی نشاندہی کی لیکن پانچ منٹ گھنٹیاں بجانے کے بعد کورم پورا ہونے پر دوبارہ کارروائی کا آغاز کیا گیا ۔