وفاق اور سندھ حکومت اتحادی جماعتوں کو نوازنے اور مخصوص شہروں اور علاقوں کے مفادات کے تحفظ کی پالیسی اپنا لی،فاروق ستار

منگل 24 مئی 2016 22:39

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔24 مئی۔2016ء) متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے سینئر ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت اپنی اتحادی جماعتوں کو نوازنے اور مخصوص شہروں اور علاقوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کی پالیسی اپنا لی ہے ، سندھ کے شہر کراچی ، حیدرآباد، میر پور خاص ، سکھر اور نوابشاہ کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا ہے ۔

انہوں نے وزیراعظم نواز شریف سے مطالبہ کیا کہ کراچی اور حیدرآباد ایم نائن موٹر وے منصوبہ وفاقی حکومت اپنے فنڈ سے بنائے ، کراچی سرکلر ریلوے کو بحال کرے اور کراچی سے بلوچستان کے شہر بسما تک 3سو کلو میٹر کا کوریڈور بنایاجائے ۔ان خیالات کااظہار انہوں نے منگل کے روز خورشید بیگم سیکریٹریٹ عزیز آباد میں ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر کنور نوید جمیل ، رابطہ کمیٹی کے رکن محمد حسین ، سندھ اسمبلی میں ایم کیوایم کے قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن اور نامزد حق پرست میئر کراچی وسیم اختر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر فاروق ستار نے کہاکہ ترقیاتی و تعمیراتی منصوبوں میں سندھ کے شہری علاقوں کو نظر انداز کرنا انتہائی قومی اہمیت کا مسئلہ ہے ، سندھ پاکستان کا اہم صوبہ ہے اور کراچی پاکستان کا اہم ترین شہر ہے ،رواں مالی سال میں یعنی گزشتہ ایک سال میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں سندھ کے شہر کراچی پر کوئی توجہ نہیں دے رہیں ۔ انہوں نے سوال کیا کہ رواں مالی سال میں حکومت نے اربوں کھربوں روپے کہاں خرچ کئے اور جو شہر اربوں کھربوں روپے جنریٹ کرتا ہے اس شہر کو پانی کیلئے ترسایاجارہا ہے ، اس شہر کو کربلا بنایاجارہا ہے ، اس شہر کے انفر اسٹرکچر اور بنیادی شہری ڈھانچے کو تباہ و برباد کیاجارہا ہے اور اس میں وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کی بے حسی، مجرمانہ غفلت اور غلط ترجیحات شامل ہیں وہ اپنی نااہلی اور کرپشن سے کراچی کو نظر انداز کرکے بے حسی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور اس تمام صورتحال میں ہمارا سوال یہ ہے کراچی شہر وفاقی اور صوبائی حکومت کی ترجیحات میں کہاں کھڑا ہے ؟۔

انہوں نے کہاکہ حکومت کراچی کو نظر انداز کرکے کراچی کے عوام کے بنیاد ی مسائل سے عدم توجہی ا ور بے حسی کا مظاہرہ کرکے قومی استحکام کو سنگین خطرات سے دوچار کررہی ہے ، کراچی کو تباہی و بربادی کی طرف دھکیل کر پاکستان کی تباہی کا سامان پیدا کیاجارہا ہے اور ملکی بقاء و سلامتی کو داؤ پر لگایاجارہا ہے ۔انہوں نے 2015-16ء کے وفاقی اور صوبائی بجٹ کے اخباری تراشے دکھائے اور ان میں تعمیراتی و ترقیاتی منصوبوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہاکہ112ارب کے میگا ترقیاتی پروجیکٹ بنیادی طورپر کہاں ہیں ؟ ہری پور میں پانچ سے دس ارب روپے کا اعلان کیاگیا، ، موٹر ٹرین کا مانسہرہ سے ٹھاکر تک علان کیا گیا، آزاد جموں کشمیر میں 42تر قیاتی پروجیکٹس کا سنگ بنیاد رکھا گیا، ڈھائی ارب لودھراں کیلئے رکھے گئے، کوئٹہ میں توانائی ، گیس ، شاہراہیں اور انڈر پاسز کے لئے اربوں روپے کے پروجیکٹ ہیں ، بجلی کے ساڑھے سات ارب روپے اور ڈھائی ارب روپے کے منصوبے ہیں ، یہ ظاہرکرتا ہے کہ یہ سب پروجیکٹس مولانا فضل الرحمن کے ساتھ دوستی کی قیمت ہے جو قوم ادا کررہی ہے ۔

اسی طرح ڈیرہ غازی خان میں بروری روٹ کوئٹہ زرغون روڈ، کوئٹہ میں انڈر پاس 5، فروری 2016کے منصوبے ہیں ۔ اسی طرح پانامہ لیکس کے بعد کے منصوبے کوٹلی ستیاں سے شروع ہوئے اور کہا کہ بتائیں کونسی سڑک بنانی ہے ، آپ بتائیں ابھی اعلان کرتے ہیں جیسے دربار جہانگیر ی لگا ہوا ہے ، اب یہ رویہ جمہوری ہے یا غیر جمہوری ایسے رویئے سے پاکستان کی جمہوریت کو کتنا فائدہ اور نقصان ہوگا اس کا اندازہ لگا لیں ، یہ مخصوص جمہوریت ہے ، مخصوص مفادات کے تحفظ کی جمہوریت ہے جبکہ اس جمہوریت کوصحیح معنوں میں ایک فعال ، متحرک ،اور شراکتی جمہوریت ہونا چاہیے تھا ۔

انہوں نے کہا کہ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور میں بھی بلوچستان کا خیال اس لئے آگیا ہے کہ حاصل بزنجو ، محمود اچکزئی اور فضل الرحمن نواز شریف کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ، اب چائنا پاکستان اکنامی کوریڈور کو ان علاقوں سے ضرور گزرنا ہے جو اتحادیوں کے ہیں یہ قومی منصوبہ ہے یا چند سیاسی جماعتوں کے اتحاد کو فائدہ دینے کا منصوبہ ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اپریل 2016ء میں اوگرا کوبائی پاس کردیا گیا اور کہا کہ تیل کی قیتموں میں اضافہ اگلے مہینے نہیں ہوگا اور جب ہم کہتے ہیں کہ تیل کی قیمتیں کم کی جائیں تو کہا جاتا ہے کہ اوگرا آزاد و خود مختار ادارہ ہے ، سارے ادارے حکومت کیلئے سرنگوں،ہیں اور انکی آزادی و خودمختاری محض ڈھکوسلہ اور دکھا وہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاہور ، ملتان ، ڈی آئی خان میں چار کوریڈورز کے اپریل اور مئی میں سنگ بنیاد رکھے گئے جبکہ یہ وہ منصوبے ہیں جن کے لئے 133ارب روپے کا چائنا بنک نے ایک منصوبہ پہلے ہی رکھا ہوا ہے کیونکہ اس میں اپنے اتحادیوں کو فائدہ پہنچانا مقصود تھا تو 11ارب روپے پاکستان کے وسائل سے مزید خرچ کئے گئے ۔ انہوں نے کہاکہ مئی کے مہینے میں 55کلو میٹر ڈیرہ اسماعیل خان سے رحمانی کے رعلاقے تک چائنا پاکستان کوریڈور منصوبہ تھا لیکن 5ارب روپے مزید رکھ کر اتحادیوں کے علاقے میں یہ شاہراہ رکھی گئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پہلا منصوبہ کراچی سے حیدرآباد ایم نائن موٹر وے خدا خدا کرکے شروع ہوا تو اس میں بھی سوتیلی ماں والا سلوک کیاجارہا ہے، کہا گیا تھا کہ کراچی اور حیدرآباد کیلئے موٹر وے بن رہی ہے لیکن یہ شاید دوسری موٹر وے ہے جو بل آپریٹ ٹرانسفر پر بن رہی ہے ، تیس سال تک ایک پرائیوٹ سیکٹر اسے چلائے گا اور اپنی مرضی کا ٹیکس کراچی اور حیدرآباد والوں سے اس پر وصول کریگا ، ایم نائن کراچی سے سپر ہائی شاہراہ ہے یہ پاکستان کی سب سے مصروف شاہراہ ہے ، یہاں تیس ، پنتیس ہزار گاڑیاں روزانہ گزرتی ہیں ، کیا ایم ون لاہور اسلام آباد میں بننی چاہئے تھی یا کراچی اور حیدرآباد میں بننی چاہئے تھی ۔

انہوں نے کہاکہ یہ تقابلی جائزہ ہے ، اور بتانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ سارے منصوبے قومی یکجہتی اور قومی ہم آہنگنی کو فروغ نہیں دے رہے بلکہ ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نواز شریف بتا دیں کہ وہ پاکستان کے کن مخصوص علاقوں کے وزیراعظم ہیں اور ان کی ترجیحات پر کون سے علاقے ہیں ؟ کیا وہ اپنی سیاست ، اختیار اور اقتدار اپنے ووٹرز کو مطمئن کرنے ، آئندہ کیلئے پکا کرنے اور خریدنے کیلئے اسی طرح سیاسی رشوتیں دیتے رہیں گے ؟۔

انہوں نے کہا کہ قومی جماعتوں کو سوچنا چاہئے کہ کراچی ، حیدرآباد، سکھر ، نوابشاہ اور میر پور خاص کے شہری علاقوں کے عوام کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے جبکہ سیاسی طور پر ملک کے وسائل سے اپنے اتحادیوں کی وفاداریوں کے بدلے میں انہیں نوازا جارہا ہے ۔ہم ایک سال سے ان ساری باتوں کیلئے نواز شریف سے وقت مانگ رہے ہیں ان کے پاس ان منصوبوں پر بات کرنے کیلئے وقت نہیں ہے انہوں نے مطالبہ کیاہے کہ ایم نائن کا متبادل روٹ ہونا چاہئے ، ایم نائن الگ سے بنا کر دیں تو بات ہوگی کہ سندھ اور کراچی کی خدمت کی ، دوسرا مطالبہ ہے کہ ٹول کو کم رکھیں اور کاروباری حضرات کو تحفظ دیں ۔

انہوں نے کہا کہ 2016اور2015ء کے بجٹ میں قائم علی شاہ کی راج دھانی میں 125ارب روپے کے جو ترقیاتی فنڈز پروجیکٹ ہیں اس میں کراچی ، حیدرآباد، میرپور خاص ،نوابشاہ اور سکھر کے شہروں کیلئے ایک پیسہ نہیں رکھا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اب تک عوام کو شہری سہولیات کے اداروں کے دفاتر پر پتھراؤ کرنے سے روکا ہوا ہے اور اب ہم ایک بڑی تحریک کاآغاز کررہے ہیں اور ہم فیصلہ کن جدوجہد کی طرف جائیں گے جس کا مقصدمقامی حکومتوں کو اختیارات ، وسائل دینا ، نئے صوبوں کا قیام ، مردم شماری کا منصفانہ انعقاد ہوگا، ابھی ہم لوگوں کو شعور دے رہے ہیں یہ ہوسکتا ہے کہ آگے جاکربڑا دھرنا دیں اور وہ کہاں ہوگا اس کا تعین وقت کرے گا اور اب ناانصافی کے خاتمے کیلئے پرامن احتجاج اور دھرنے ہوں گے ۔

متعلقہ عنوان :