وفاقی بجٹ تیاری کے آخری مراحل میں ہے ، 1750 ارب سے زائد صوبوں کو ملنے کی توقع ہے ، جون تک بجٹ خسارہ 4.3 فیصد تک لائیں گے ، کپاس کی ہدف سے 5 ملین بیلز کم پیداوار ہے ،شرخ نمو متاثر ہونے پر شدید تشویش ہے ، بجٹ میں عام لوگوں پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا ، ٹیکس نادہندگان کی زندگی اجیرن بنا دی جائے گی ، تجارتی خام مال میں عائد ڈیوٹی پر نظر ثانی کی جا رہی ہے ، ترقیاتی بجٹ بڑھایا جا رہا ہے ، حکومت بجلی کے 25000 میگا واٹ کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے ،معیشت کو سیاست سے علیحدہ کیا جائے اور چارٹر آف اکانومی مرتب کیا جائے

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا پری بجٹ سیمینار سے خطاب حکومت آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چوتھا بجٹ پیش کر رہی ہے ، حکومت شرح نمو کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ، زراعت کے شعبہ تباہی کا شکار ہے، شاہ محمود قریشی حکومت منصفانہ بنیاد پر وسائل کی تقسیم کو یقینی بنائے، سینیٹر عثمان کاکڑ

منگل 24 مئی 2016 22:28

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔24 مئی۔2016ء ) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ تیاری کے آخری مراحل میں ہے ، بجٹ میں 1750 ارب سے زائد صوبوں کو ملنے کی توقع ہے ، بجٹ خسارہ 4.3 فیصد تک جون تک لائیں گے ، کپاس کی ہدف سے 5 ملین بیلز کم پیداوار ہے شرخ نمو متاثر ہوئی اس پر شدید تشویش ہے ، بجٹ میں عام لوگوں پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا ، ٹیکس نادہندگان کی زندگی اجیرن بنا دی جائے گی ، تجارتی خام مال میں عائد ڈیوٹی پر نظر ثانی کی جا رہی ہے ، ترقیاتی بجٹ بڑھایا جا رہا ہے ، حکومت بجلی کے 25000 میگا واٹ کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے ، دریائے سندھ سے 90 ہزار بجلی پیدا کرنے کا پوٹینشل موجود ہے ، معیشت کو سیاست سے علیحدہ کیا جائے اور چارٹر آف اکانومی مرتب کیا جائے ۔

(جاری ہے)

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چوتھا بجٹ پیش کر رہی ہے ۔یک طبقہ پیسہ کما کر پاکستان بھیجتا ہے اور ایک طبقہ یہاں سے پیسہ چوری کر کے باہر بھیج رہا ہے۔ شرح نمو کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ۔ زراعت کے شعبہ تباہی کا شکار ہے کسانوں کی معاشی حالت بگڑ چکی ہے ۔ خیبر پختونخوا سمیت صوبوں نے زراعت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی ، کسان پیکیج حکومت کا ایک نا ٹک تھا۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ حکومت منصفانہ بنیاد پر وسائل کی تقسیم کو یقینی بنائے۔ وہ منگل کو یہاں پری بجٹ سیمینار سے خطاب کررہے تھے ۔ اس موقع پروفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ بجٹ تیاری کے آخری مراحل میں ہے ۔سب کو دیکھنا چاہیے کہ معیشت کس حالت میں ہمیں ملی تھی ، پاکستان کو معاشی طور پر عدم استحکام قراردیا جا رہا تھا ۔ عالمی ادارے اپنا کام بند کر چکے ہیں ، پاکستان کے ذخائر 2014تک 9سے10دن کے تھے۔

3بلین ڈالر کے ذخائر تھے ، یہ آسان ہدف نہیں تھا ،عالمی ماہرین کہہ تھے کہ 4سے5سال لگیں گے ،پاکستان کی معیشت کو استحکام میں لانے کے لئے لگیں گے ۔مئی2018میں چھٹا بجٹ پیش کریں گے ۔ بجلی کی کوئی پیداوار نہیں کی گئی ۔ملک میں16سے18گھنٹے کی لوڈشیڈنگ تھی ۔ قلیل وقت میں بہتری لائی ہے ۔ ہمیشہ کہتا ہوں کہ معیشت کو سیاست سے علیحدہ کیا جائے ۔ ٹیکسوں کی گروتھ بالکل ختم ہو گئی تھی ۔

معیشت کے حوالے سے سیاسی جماعتیں اکٹھے ملکر چلیں گے تو معاملات حل ہوں گے ۔ الیکشن کمیشن کے حوالے سے متفقہ ترمیم آگئی ۔ تیسرے سال میں اب تک 19فیصد کی ٹیکسوں کی گروتھ ہوئی ہے ۔ ریونیو میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ 1700ارب سے اوپر صوبوں کو ملنے کی توقع ہے اور صوبوں کی ذمہ داری ہے بہتری کے لئے خرچ کریں ۔ وفاقی حکومت کے کم حصہ رہ جاتا ہے اکثریت حصہ میں صوبوں کے پاس ہے خزانہ ہے ۔

بجٹ خسارہ 8.8فیصد سے کم ہو کر4.3فیصد پر جون تک لانے کی کوشش کریں گے ۔ مالی ڈسپلن لایا ہے حکومت کے جاری اخراجات میں بڑے پیمانے پر کمی کی ۔ وزیراعظم کے صوبیدیدی فنڈز کو زیرو کر دیا ہے ۔ وفاقی وزراء کے صوبیدیدی فنڈز کو صفر کر دیا ہے ۔ بجٹ خسارے کو 3.8فیصد پر لے جائیں گے۔ سیاست کی وجہ سے نقصان نہیں ہونے دیں گے ۔ ایکسپورٹ میں کمی کی وجہ عالمی مارکیٹ مین قیمتوں کی کمی ہے ۔

کپان کی 5ملین بیلزکم پیدا ہوئی اس کی وجہ سے گروتھ متاثر ہوئی اور یہ تکلیف دہ ہے ۔ آدھا فیصد نقصان کیا ہے ۔ شرح نمو میں اس حوالے سے خصوصی اجلاس بلایا ہے ۔ اس کو برداشت نہیں کیا جا سکتا ۔ بجلی کے پیداوار ڈیمز بنا رہے ہیں ۔ دریا کے سندھ کے اوپر90ہزار میگاواٹ کی بجلی پیداکرنے کی صلاحیت ہے ۔ لیکن اس کے لئے وقت اور سرمائے کی ضرورت ہے ۔ تمام جماعتیں متفق ہوجائیں تو ملکی معیشت بہت آگے جا سکتی ہے ۔

ایل این جی کے 3600میگاواٹ بجلی کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے ۔ مارچ2018تک10ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم ڈالیں گے۔ اپنی حکومت کی مدت کا خیال رکھے بغیر ہی طویل المدت بجلی کے منصوبے کا آغاز کر رہے ہیں ۔ 2.3 ملین ڈالر ضرب عضب پر خرچ کئے گئے ۔ ریٹنگBہوچکی ہے ۔ عالمی ادارے پاکستان کو سرمایہ کاری کی بہترین منزل قرار دے رہے ہیں ۔ سی پیک آغاز ہے سعودی عرب ، قطر، مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی نظریں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر ہیں ۔

عالمی ادارے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت 45سے کم ہو کر 18ویں بڑی معیشت 2050تک بن جائے گی ۔ حکومت نے آدھی مدت میں معاشی استحکام حاصل کر لیا ہے شرح نمو اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا فوکس ہے ۔ مشکل ٹارگٹ رکھے جائیں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جائے ۔ زراعت کے شعبہ میں بہتری کے لئے تمام کوششیں بروئے کار لائیں گے۔ تمام شعبوں میں بہتری لائیں گے۔

تمام شعبوں سے تجاویز لیتے ہیں ۔ اچھا سے اچھا بجٹ پیش کرنے کی کوشش کریں گے ۔ نان فائلرز کی زندگی اجیرن بنائی جائے گی اور ٹیکس دہندگان پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ ودہولڈنگ ٹیکس کے حوالے سے تاجروں کے دباؤ میں نہیں آئے ۔ تجارتی میٹریل کی ڈیوٹی پر نظرثانی کی جائے گی ۔ ترقیاتی بجٹ کو بڑھایا جائے ۔دفاعی بجٹ کی ضروریات پوری کریں گے ۔ ارکان پارلیمنٹ تجاویز بجٹ کے حوالے سے دیں غور کیا جائے گا۔

چارٹر آف اکانومی بہتری کے لئے ضروری ہے ۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پری بجٹ سیمینارز کے حوالے سے سہ ماہی بجٹ پیش کرنے کی روایت ڈالیں کیونکہ سال میں چار بجٹ آتے ہیں ۔ وفاقی وزراء میں سے اسحاق ڈار میرے پسندیدہ وزیر ہیں کیوں کہ کابینہ میں عابد شیر علی اور خواجہ آصف نظر آتے ہیں ۔ اسحاق ڈار کو بجٹ پیش کیے ہیں کسی نے نہیں کیے ان کا تجربہ زیادہ ، آئی ایم ایف کی زیر نگرانی چاتھا بجٹ ہے ۔

اس سے ہدایات لینے پڑتی ہیں ۔ آئی ایم ایف کی سرپرستی میں پیش کیا جائے گا۔ملکی معیشت کو پبلک سیکٹرز انٹرپرائزز کی اصلاحت کے حوالے سے کوئی کام نظر نہیں آیا ۔ 400ارب سرکلر ڈیٹ ایک دم ادا کئے گئے لیکن سرکلر ڈیٹ کا جن آج بھی موجود ہے ۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے میں ناکام رہی ۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم ناکام ہوئی ۔ 10لاکھ ٹیکس دہندگان کا دعویٰ تھا لیکن کوئی نہیں آیا۔

ان ڈائریکٹ ٹیکس پر زیادہ توجہ ہے اور تمام صارفین پر دوبارہ بوجھ ہے ۔ آج بھی ملک کا انحصار سیلز ٹیکس پر ہے ۔ صحت مند معیشت کے لئے درست سمت ہیں ہے ۔ پاکستان کو بہت بڑا چیلنج بے روزگاری ہے اس کے لئے شرح نمو میں اضافہ کرنا ہو گا۔ حکومت شرح نمو کا ٹارگٹ 5.5پورا کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ زراعت کی گروتھ تو منفی ہو گئی ہے۔ ٹیکسٹائل صنعت میں بحرانوں کی وجہ سے کپاس کی پیداوار میں کمی ہے ۔

ایک طبقہ پیسہ کما کر پاکستان بھیجتا ہے اور ایک طبقہ یہاں سے پیسہ چوری کر کے باہر بھیج رہا ہے ۔ سرمایہ کاری مایوس کن حدتک گر رہی ہے ۔ تقریب سے ایف پی سی سی آئی کے صدر عبدالرؤف عالم ، سارک چیمبر آف کامرس کے نائب صدر افتخار ملک ، سٹاک ایکسچینج کے تاجر عارف حبیب ، عارف چیمہ ، اسلام آباد چیمبرز آف کامرس کے صدر عاطف اکرم ، سینئر صحافی ضیاء الدین احمد نے بھی آمدہ بجٹ کے حوالے سے تجاویز پیش کیں