قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کاچیئرمین سیّد خورشید احمد شاہ کی زیر صدارت اجلاس

منگل 24 مئی 2016 21:43

اسلام آباد ۔ 24 مئی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔24 مئی۔2016ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے بینویلنٹ فنڈ کی جانب سے خلاف قواعد غیر سرکاری سیکورٹیز اور شیئرز میں2 ارب 68 کروڑ کی سرمایہ کاری پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ غریبوں، یتیموں اور بیواؤں کی رقم ہے، اس رقم پر شاہ خرچیوں کا کوئی جواز نہیں بنتا، سرکاری اداروں کو گورنمنٹ پالیسی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے اپنی پالیسیاں بنانی چاہئیں جبکہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ طاہر شہباز کا کہنا تھا کہ تمام سرکاری اداروں کو یونیفارم پالیسی کا پابند بنانے کیلئے پارلیمنٹ رہنمائی فراہم کرے، کسی ادارے کو اپنی الگ بادشاہت نہیں بنانی چاہئے۔

اجلاس منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں پی اے سی کے چیئرمین سیّد خورشید احمد شاہ کی زیر صدارت ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان راجہ جاوید اخلاص، شاہدہ اختر علی، شیخ رشید احمد، ڈاکٹر عارف علوی، جنید انور چوہدری اور ڈاکٹر درشن سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور وزارت کیڈ کے 2012-13ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے آڈٹ اعتراضات کے جائزہ کے دوران پی اے سی کے چیئرمین سیّد خورشید شاہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ چھوٹی چھوٹی باتیں پی اے سی میں لانے کی بجائے محکمانہ آڈٹ کے نظام کے تحت طے ہونی چاہئیں یا کم از کم آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو چاہئے کہ تین ماہ میں ایک مرتبہ تمام وزارتوں اور ڈویژنز کے پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران کے ساتھ مشترکہ اجلاس منعقد کریں جس میں اصول و ضوابط کے حوالہ سے بات ہونی چاہئے۔

آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ 2003ء میں بینویلنٹ فنڈ اور گروپ انشورنس کی 2 ارب 68 کروڑ سے زائد کی رقم غیر سرکاری سیکورٹیز اور شیئرز میں سرمایہ کاری کی حالانکہ 1969ء کا ایکٹ انہیں صرف سرکاری شیئرز اور سیکورٹیز میں سرمایہ کاری کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے جواب میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ فنانس ڈویژن کی گائیڈ لائن کے تحت سرمایہ کاری کی گئی۔

قائد حزب اختلاف سیّد خورشید شاہ نے کہا کہ 22 ارب کی سرمایہ کاری میں سے صرف 2 ارب 68 کروڑ پر اعتراض کیا گیا ہے، اس کی وضاحت ہونی چاہئے۔ ایم ڈی بینویلنٹ فنڈ اینڈ گروپ انشورنس شبیر احمد نے بتایا کہ یہ سرمایہ کاری سٹیٹ بینک کی فہرست کے مطابق کی گئی ہے۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ وہ فہرست پی اے سی کو فراہم کی جائے۔ ایم ڈی نے کہا کہ یہ سرمایہ کاری کھاد اور ٹیکسٹائل کے کارخانے میں کی گئی، گیس بحران کی وجہ سے یہ نقصان ہوا۔

آڈٹ حکام نے کہا کہ انہوں نے جن کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی وہ سٹیٹ بینک کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ ایم ڈی بینویلنٹ فنڈ نے کہا کہ ہمارے ایکٹ کے تحت سرمایہ کاری قانون کے مطابق ہوتی ہے۔ فنانس ڈویژن نے 2003ء میں تمام محکموں کو اس طرح کی سرمایہ کاری کی اجازت دی ہے، یہ سرمایہ کاری بھی ٹی او آر کے مطابق ہے، یہ معاملہ نیب کے پاس زیر تفتیش ہے۔

ہم نے ان سے استدعا کی ہے کہ ہمیں ریکوری کرکے دی جائے اور اگر اس میں کوئی بدنیتی شامل ہے تو اس سے بھی آگاہ کیا جائے۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ طاہر شہباز نے کہا کہ انہوں نے اپنے طور پر تحقیقات کرنے کے بعد بدعنوانی کے امکان کی وجہ سے نیب کو تحقیقات کیلئے معاملہ سپرد کیا۔ اس وقت کی انوسٹمنٹ کمیٹی میں شامل لوگوں کے خلاف تحقیقات ہوں گی۔ پی اے سی کے چیئرمین نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو اس بات کا نوٹس لینا چاہئے، پہلے سارے معاملہ کو جائز قرار دیا گیا اور اب کہا جا رہا ہے کہ اس وقت کی انوسٹمنٹ کمیٹی اس کی ذمہ دار ہے۔

نیب کو اس معاملہ پر خاموش نہیں رہنا چاہئے، نہ انہیں دوہرے معیار رکھنے چاہئیں۔ پی اے سی کے چیئرمین نے اس سرمایہ کاری کے حوالہ سے کیس کی نیب سے رپورٹ طلب کر لی۔ ہاؤس رینٹ کی خلاف قانون ادائیگی کے حوالہ سے آڈٹ اعتراض کا جائزہ لیتے ہوئے سیّد خورشید احمد شاہ نے کہا کہ بینویلنٹ فنڈ غریبوں، یتیموں اور بیواؤں کا ادارہ ہے، اس کی رقم پر شاہ خرچیوں کا کوئی جواز نہیں بنتا، جن جن لوگوں نے یہ ناجائز رقم لی ہے ان سے ریکوری کی جائے اور اس کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

آڈٹ حکام نے کہا کہ اداروں کے سرمایہ کاری بورڈز کو سرمایہ کاری کی پالیسی سرکاری دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے بنانی چاہئے۔ گورنمنٹ کی پالیسی فریم ورک کے اندر رہنا قانونی تقاضا ہے۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ اس معاملہ پر تفصیلی غوروخوض کے بعد پی اے سی کے سامنے دوبارہ حاضر ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تمام اداروں کو یونیفارم پالیسی کا پابند ہونا چاہئے، کسی آئینی ادارے کو اپنی بادشاہت قائم نہیں کرنی چاہئے۔

اس حوالہ سے پارلیمنٹ سے واضح ہدایت جانی چاہئے۔ پی اے سی کے ایک سوال کے جواب میں ایم ڈی بینویلنٹ فنڈ نے بتایا کہ جس سرکاری ملازم کا دوران ملازمت انتقال ہو جاتا ہے اس کی بیوہ کو 10 لاکھ روپے یکمشت رقم ادا کی جاتی ہے اور 15 سال تک انہیں ماہانہ رقم بھی ادا کی جاتی ہے۔ اس طرح جو سرکاری ملازم دوران ملازمت 80 فیصد معذور ہو جاتا ہے اسے بھی یہ گرانٹ ملتی ہے اور ماہانہ رقم بھی ادا کی جاتی ہے۔ وزارت کیڈ کے آڈٹ اعتراضات کے جائزہ کے دوران پی اے سی کے چیئرمین سیّد خورشید احمد شاہ نے کہا کہ ضمنی گرانٹ لینا اور وہ خرچ نہ ہونا کوئی بدعنوانی نہیں تاہم بدانتظامی کے زمرے میں آتا ہے۔ پی اے سی نے وزارت کیڈ سے اصل اور ضمنی گرانٹس کی تمام تفصیلات طلب کر لیں۔