امریکی ڈرون حملے میں ملا اخترمنصور کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کرسکتے ، ڈرون حملے پاک امریکہ تعلقات پر سنگین اثرات مرتب کرسکتے ہیں ،پاکستان میں یہ حملے غیرقانونی اور ناقابل قبول ہیں، امریکی صدر کا پاکستان میں دشمن کو ہر جگہ نشانہ بنانے کا بیان بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، امریکہ کے کہنے پر سب چلیں تو پھر دنیا میں جنگل کا قانون بن جائے گا، پاکستان میں دھماکے کرنے والے افغانستان میں بیٹھے اور پاکستان مخالف مغرب میں آزاد پھر رہے ہیں، ولی محمد افغانستان میں تھا تو امریکہ کیلئے خطرہ نہیں تھا، پاکستان میں داخل ہوتے ہی وہ کیسے خطرہ بن گیا،شنید ہے ڈرون نے پاکستان کی حدود میں آکر گاڑ ی کو نشانہ نہیں بنایا،مزید تحقیقات کررہے ہیں ، امریکہ یہ بھی فیصلہ کرلے کہ اس خطے میں کونسی پالیسی موثر اور کارگر ہے، افغان حکومت سے مذاکرات میں ملا منصور نے طالبان کی قیادت کی پھر وہ کیسے مذاکرات کیلئے خطرہ تھا، وہ خطرہ ہوتا تو مری مذاکرات کیسے ہوتے،گزشتہ دوسال میں 29ہزار افراد کے پاسپورٹ منسوخ کئے گئے ،ڈرون حملے میں ہلاک ڈرائیور کی شناخت ہونے پر لاش ورثاء کے حوالے کر دی گئی، امریکہ نے واقعہ کے 7 گھنٹے بعد سرکاری طور پر اطلاع دی

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا پریس کانفرنس سے خطاب

منگل 24 مئی 2016 20:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔24 مئی۔2016ء) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان کے سربراہ ملا منصور کی ہلاکت کی تصدیق سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت اس بات پر متفق ہے کہ پاکستان میں امریکی ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ، غیرقانونی اور ناقابل قبول ہیں، امریکی صدر کا پاکستان میں دشمن کو ہر جگہ نشانہ بنانے کا بیان بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور ناقابل قبول ہے، ڈرون حملوں سے پاک امریکہ تعلقات پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، امریکہ کے کہنے پر سب چلیں تو پھر دنیا میں جنگل کا قانون بن جائے گا، پاکستان میں دھماکے کرنے والے افغانستان میں بیٹھے اور پاکستان کی مخالفت کرنے والے مغرب میں آزاد پھر رہے ہیں، سوال پیدا ہوتا ہے کہ ولی محمد افغانستان میں تھا تو امریکہ کیلئے خطرہ نہیں تھا، پاکستان میں داخل ہوتے ہی وہ کیسے خطرہ بن گیا ، گاڑی کو پاکستان میں نشانہ بنانے کی منطق سمجھ میں نہیں آتی، شنید ہے کہ ڈرون طیارے نے پاکستانی سرحد پار نہیں کی بلکہ کسی اور ملک کی سرحد سے پاکستانی سرحد میں موجود گاڑی کو میزائل سے نشانہ بنایا،اس سلسلے میں مزید تحقیقات کر رہے ہیں، امریکہ یہ بھی فیصلہ کرلے کہ اس خطے میں کونسی پالیسی موثر اور کارگر ہے، افغان حکومت سے مذاکرات میں ملا منصور نے طالبان کی قیادت کی پھر وہ کیسے مذاکرات کیلئے خطرہ تھا، وہ خطرہ ہوتا تو مری مذاکرات کیسے ہوتے، مذاکرات کے پہلے دور سے چند دن قبل ملا عمر کی ہلاکت کی خبر لیک کی گئی، دوسرے مرحلے میں افغانستان میں حملے نہ کرنے کا اعلان ہونا تھا، یہ نہیں ہو سکتا کہ سربراہ کو قتل کر کے طالبان سے کہا جائے کہ آؤ مذاکرات کریں،ڈرون حملے کا نشانہ بننے والے ولی محمد کا شناختی کارڈایک سال پہلے منسوخ کر دیا گیا تھا، گزشتہ دوسال میں 29ہزار افراد کے پاسپورٹ منسوخ کئے گئے ،ڈرون حملے میں ہلاک ڈرائیور کی شناخت ہونے پر لاش ورثاء کے حوالے کر دی گئی، امریکہ نے ڈرون حملے سے پہلے کوئی اطلاع نہیں دی بلکہ واقعہ کے 7 گھنٹے بعد سرکاری طور پر اطلاع دی، ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد میڈیا کو مزید معلومات دیں گے خطے میں امن کیلئے مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں اور خطے میں امن کی سب سے زیادہ ضرورت افغانستان اور پاکستان کو ہے۔

(جاری ہے)

وہ منگل کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ بلوچستان میں ڈرون حملہ 2روز پہلے ہوا تھا دن کے ساڑھے3بجے کے قریب اور اسکے 7 گھنٹے بعد امریکہ نے سرکاری طور پر اطلاع دی، حملے میں گاڑی راکھ بن گئی تھی اور گاڑی میں سوار دونوں مسافر مارے گئے، گاڑی سے چند گز دور سے ایک پاسپورٹ ملا، اطلاع میں امریکہ کی طرف سے کہا گیا کہ ملا منصور کو نشانہ بنایا گیا، دونوں لاشوں کے چہرے ناقابل شناخت تھے اس لئے تصدیق نہیں کر سکے کہ ہلاک ہونے والا ملا منصور ہے یا کوئی اور ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈرائیور کی شناخت ہو گئی ہے اور لاش ورثاء کے حوالے کر دی گئی ہے، ڈی این اے ٹیسٹ کے بغیر خبر کی تصدیق کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے اعلان کے بعد تانے بانے ملانے کی کوشش کی گئی ۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ملا اختر منصور پر دفتر خارجہ کا موقف آ گیا تھا، ملا منصور کے رشتہ دار نے میت حوالگی کی درخواست کی ہے، ملا منصور کے رشتہ دار کے ڈی این اے نمونے لے لئے گئے ہیں، ڈی این اے کی رپورٹ آنے کے بعد واضح اعلان کر دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان ڈرون حملے کی سخت مذمت کرتی ہے، ڈرون حملے کا امریکی جواز غیر قانونی اور ناقابل قبول ہے۔ یہ حملے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ وزیراعظم کی وطن واپسی پر قومی سلامتی کونسل کا اجلاس ہو گا اور مشاورت کے بعد قوم اور دنیا کے سامنے واضح نکتہ نظر رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت تک تصدیق نہیں کی جا سکتی کہ ملنے والا پاسپورٹ مرنے والے کے زیر استعمال تھا، ملنے والا پاسپورٹ ولی محمد کے نام پر ہے اور شناختی کارڈ 2001ء میں بنا ،2005 میں مشرف دور میں ہی ولی محمد کا پاسپورٹ جاری ہوا تھا، 2011 میں پی پی دور میں ولی محمد کے پاسپورٹ کی تجدید ہوئی۔

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ موجودہ حکومت نے شکوک کی بنیاد پر 24ہزار شناختی کارڈ منسوخ کئے گئے، میں نے صرف تقریریں ہی نہیں کیں بلکہ بد عنوان عناصر کے خلاف عملی اقدامات کئے، گزشتہ سال 96 ہزار 689 شناختی کارڈز منسوخ کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال کے پانچ ماہ میں ایک لاکھ 11ہزار 540 شناختی کارڈز منسوخ کئے گئے، واضح ہدایات دی ہیں کہ کسی سے زیادتی نہ ہو اور بدعنوان بچ نہ پائیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ نادرا سے بدعنوانی میں ملوث 614 اہلکاروں کو فارغ کیا گیا، دو سال کے عرصے میں 29 ہزار سے زائد پاسپورٹ منسوخ کئے گئے، ہم نے ریکارڈ چیک کرایا کہ ولی محمد کے شناختی کارڈ کی 2001 میں کس نے تصدیق کی، تصدیق کرنے والے دونوں اشخاص کو گرفتار کیا گیا، ان دونوں افراد نے شناختی دستاویزات کی تصدیق کی تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ پھر کاغذات کی تصدیق کرنے والے تحصیلدار کی گرفتاری کا حکم دیا تو ان کی وفات ہو چکی تھی، پھر کاغذات کی تصدیق سے متعلقہ ایک اور افسر سے بھی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ نادرا کوئٹہ میں بدعنوانی میں ملوث افراد کے خلاف پہلے ہی کارروائی کر رہا ہے، دو اسسٹنٹ کمشنر جعلی شناختی کارڈ کیس میں گرفتار کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی مفاد کی خاطر نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کو شفاف ادارہ بنانا ہے، پاکستان کیلئے خطرہ بہت سے لوگ دوسرے ملکوں میں قیام پذیر ہیں، گاڑی کو پاکستان میں نشانہ بنانے کی منطق سمجھ میں نہیں آئی۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ملا منصور کئی ملکوں میں پھرتا رہا تو پھر وہاں کیوں نہیں نشانہ بنایا گیا، اس کو پاکستان میں ہی کیوں نشانہ بنایا گیا ہے، امریکہ کو یہ بھی فیصلہ کرلینا چاہیے کہ اس خطے میں کونسی پالیسی موثر رہے گی، کہا جاتا ہے کہ ملا منصور امن عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات طالبان کی قیادت منصور نے کی تھی، امریکہ اپنی ڈیڑھ لاکھ فوج کی مدد سے بھی افغان طالبان کو ختم نہیں کر سکا، اگر فوجی کارروائی ہی کرنی تھی تو پھر قطر میں طالبان کا دفتر کھولنے کا کیا مقصد تھا۔

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ کہیں پٹاخہ بھی چلتا ہے تو پاکستان پر الزام لگا دیا جاتا ہے، پاکستان کا واضح موقف ہے کہ خطے میں امن کا راستہ صرف مذاکرات ہیں کیونکہ اگر فوجی کاروائی مسئلے کا حل ہوتی تو 2001 میں ہی مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلے کے حل میں پاکستان اور افغانستان سب سے بڑے فریق ہیں، ضروری ہے کہ پاکستان کے موقف کا دفاع کیا جائے، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مری مذاکرات میں امریکہ اور چین بھی موجود تھے۔

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ جب مری مذاکرات میں آئندہ دور کیلئے 31 جولائی کی تاریخ مقرر ہوئی تھی تو پھر مذاکرات کے اس دور کو سبوتاژ کرنے کیلئے ملا عمر کی وفات کی خبر مذاکرات سے 4 دن پہلے نشر کر دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ طالبان اور افغان حکومت کابل کو جنگ سے آزاد علاقہ قرار دینے پر متفق ہو گئے تھے، مشکل ترین حالات میں پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی ہے، ڈرون حملہ کر کے پاکستان کیلئے مشکل صورتحال پیدا کر دی گئی ہیے۔