اگرملامنصور خطرہ تھا توپاکستان میں ہی کیوں مارا گیا،مغرب میں بہت سارے لوگوں کی وجہ سے پاکستان کوخطرہ ہے۔وزیرداخلہ پاکستان

ملامنصور کی ہلاکت کی تاحال تصدیق نہیں کرسکے،میت کے ڈی این اے ٹیسٹ کی تصدیق کے بعدواضح اعلان کیاجائیگا،حکومت پاکستان ڈرون حملے کی شدید مذمت کرتی ہے ،امریکی ڈرون حملہ غیرقانونی،بلاجوازاور اقوام متحدہ کے چارٹر کی نفی کرتا ہے،وزیراعظم کی واپسی پر نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلایا جائیگا، اجلاس میں پاکستان کا مئوقف تمام اسٹیک ہولڈر کے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھ کر دیاجائیگا،امریکہ والا قانون ہر ملک اپنا لے تو دنیا میں جنگل کا قانون ہوگا،امریکا کیلئے خطرہ بننے والے لوگ صرف پاکستان میں نشانہ کیوں؟ سرحد پار دہشت گرد بیٹھے ہیں،پاکستان تو گولہ باری نہیں کرتا۔چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ منگل 24 مئی 2016 18:35

اگرملامنصور خطرہ تھا توپاکستان میں ہی کیوں مارا گیا،مغرب میں بہت سارے ..

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔24مئی۔2016ء) :وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ اگرملامنصور خطرہ ہے توپاکستان میں ہی کیوں مارا گیا،ملا منصورایران،بحرین،افغانستان میں بھی گئے،وہاں کیوں نہیں نشانہ بنایا گیا،جب پاکستان میں داخل ہوا تب کیوں نشانہ بنایا گیا،مغرب میں مقیم بہت سارے لوگوں کی وجہ سے پاکستان کوخطرہ ہے،حکومت پاکستان ڈرون حملے کی شدید مذمت کرتی ہے،امریکہ نے ڈرون حملے کرنے کا جو جواز دنیا کے سامنے رکھا وہ غیرقانونی ،بلاجوازاور اقوام متحدہ کے چارٹر کی نفی کرتا ہے۔

انہوں نے آج اسلام آباد میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ امریکی ڈرون حملہ غیراخلاقی اور نا قابل قبول ہے۔وزیراعظم کی واپسی پر نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلایا جائیگا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں پاکستان کا مئوقف تمام اسٹیک ہولڈر کے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھ کر دیا جائیگا۔ملامنصور کی ہلاکت کی تاحال تصدیق نہیں کرسکے۔میت کے ڈی این اے ٹیسٹ لے لیے گئے ہیں جیسے ہی اس کی تصدیق ہوگی اس کا واضح اعلان کردیا جائیگا۔

انہوں نے کہا کہ امریکی ڈرون حملے میں بلوچستان میں ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا ،جس کے نتیجے میں گاڑی راکھ کا ڈھیر بن گئی اور دونوں سواروں کی لاشیں جل گئیں۔ گاڑی میں ڈرائیور سمیت دو افراد سوار تھے۔جب یہ واقع ہوا تو ایف سی اور فورسز وہاں پہنچ گئی،لاشیں جل چکی تھیں،کچھ گز کے فاصلے پر پاسپورٹ پڑا ہوا تھا۔پاسپورٹ کی تصدیق نہیں کی جاسکتی کہ یہ پاسپورٹ کیا اس شخص کے زیراستعمال تھا یا سفر کررہا تھا۔

اس کی تصدیق کیلئے کچھ ٹائم لگے گا۔انہوں نے کہا کہ پاسپورٹ ایک شخص ولی محمد کا ہے،شناختی کارڈ 2005میں نہیں بلکہ2001میں بنا۔2002 میں کمپیوٹرائز کیا گیا۔ان کے مطابق 2005 میں سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کے دور میں ولی محمد کا پاسپورٹ جاری ہوا تھا۔جبکہ2011 میں مذکورہ شخص کا پاسپورٹ تجدید کیا گیا تھا تاہم گزشتہ سال انٹیلی جنس کے ذرائع نے انہیں بتایا کہ یہ افغانیوں کو پاکستان کے شناختی کارڈ جاری ہوئے ہیں 2015میں ہم نے اس فیملی کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کو منسوخ کر دیا انہوں نے کہا کہ یہ بھی ریکارڈ پر رہے کہ جون 2013میں 6067 ، 2014میں 22361، 2015میں 96699اور 2016میں اب تک 1,11,540شناختی کارڈ منسوخ کر چکے ہیں اس معاملے پر پارلیمانی کمیٹی بنانے کو تیار ہیں انہوں نے بتایا کہ ملا منصور اور ان کی فیملی سے متعلق شناختی کارڈ کی تصدیق کرنیوالوں سے پوچھ گچھ کی گئی ہے ریکارڈ کنگالہ گیا تومعلوم ہوا کہ محمدولی کی دستاویزات کی 2005 میں قلعہ عبداللہ کے تحصیل دار نے تصدیق کی تھی۔

امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے والے ولی محمد کی دستاویزات کی تصدیق 2005 میں قلعہ عبداللہ کے ایک تحصیل دار کی جانب سے کی گئی تھی۔ ولی محمد کا نام نادرا کے ڈیٹا بیس میں شامل ہے۔ ولی محمد کےشناختی کارڈ کی تصدیق عزیزاحمد اورمحبوب خان نے کی تھی۔ ولی محمد کے شناختی کارڈ کی تصدیق کرنے والے دونوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ڈرون حملے میں مارے جانے والے شخص کی ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ آنے سے قبل تصدیق نہیں کی جا سکتی کہ آیا ہلاک ہونے والا شخص ملا اختر منصور ہے یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ 7گھنٹے بعد امریکہ نے اطلاع دی کہ ملا منصور کو ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا ہے۔افغان طالبان کے حلقوں کے مطابق ملا منصور دنیا میں نہیں رہے۔انہوں نے کہا کہ سکیورٹی اداروں نے سراغ لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ سب کیاہے؟امریکہ کے الزام کے بعد بھی ایجنسیوں نے تانے بانے ملانے کی کوشش کی۔

ایک لاش تو دے دی گئی،دوسری لاش کے بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا کہ وہ ملا منصور ہی تھا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ سرکاری طور پر اس خبر کی تصدیق کرسکیں۔کچھ اطلاعات افغانستان سے آئی ہیں اس میں کہا گیا کہ ملا منصور ہی اس ڈرون حملے کا نشانہ بنے۔جبکہ حکومت پاکستان باقاعدہ تصدیق کے بغیر اس کا اعلان نہیں کرسکتی۔چوہدری نثار نے کہا کہ امریکہ کی اس منطق جس کے مطابق جہاں امریکی مفادات کو خطرہ ہوگا حملے کیے جائیں گے، سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس منطق سے اتفاق کرلیا جائے تو پاکستان کے دشمن بھی دیگر ممالک میں موجود ہیں تاہم ہم دیگر ممالک کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر افغان طالبان کے سربراہ کو پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کی حمایت حاصل ہوتی تو کیا وہ ایک گاڑی میں صرف ڈرائیور کے ساتھ سفر کررہے ہوتے؟چوہدری نثار نے کہا کہ امریکہ والا قانون ہر ملک اپنا لے تو دنیا میں جنگل کا قانون ہوگا۔

امریکا کیلئے خطرہ بننے والے لوگ صرف پاکستان میں نشانہ کیوں؟ سرحد پار دہشت گرد بیٹھے ہیں، پاکستان تو گولہ باری نہیں کرتا،ان کا کہنا تھا کہ امریکا اس خطے میں پالیسیز کا فیصلہ کرلے۔کہا جارہا ہے کہ ملا منصور امن مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے، لیکن مذاکرات کے حوالے سے ملا منصور کا کردار اہم تھا۔ ملا منصور مذاکرات میں رکاوٹ ہوتا تو مری مذاکرات کیسے ہوتے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ ڈیڑھ لاکھ اتحادی فوجی افغان طالبان کو فتح نہیں کرسکے۔ افغان طالبان کو عسکری طاقت سے ختم نہیں کیا جاسکا۔انہوں نے کہا کہ مری مذاکرت کامیابی کے قریب پہنچ گئے تھے اور دوسرے دور میں کابل کو جنگ فری علاقہ قرار دینے میں پیشرفت ہونی تھی،31جولائی کی تاریخ بھی طے پاگئی تھی کہ مذاکرات کو سبوتاژ کرتے ہوئےتین روز قبل ملا عمر کی موت کی خبر لیک کر دی گئی اور اب ایک بار پھر ڈرون حملہ کر دیا گیا جبکہ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ ملا منصور نہ صرف مذاکرات پر آمادہ ہوئے بلکہ وہ مری مذاکرات میں بھی شریک ہوئے انہی مذاکرات میں امریکہ اور چین کے مبصرین کی موجودگی میں حقانی کا نمائندہ بھی شریک تھا وفاقی وزیر داخلہ نے اعتراف کیا کہ نادرا میں کرپشن ہوتی ہے تاہم معاملات کو درست بنانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملا منصور کو ہلاک کرکے پاکستان کے لئے مشکل پیدا کردی گئی ہے،رہنما کو مار کر طالبان کو مذاکرات کیلئے کہنا درست اقدام نہیں، طالبان سے امن مذاکرات کے دوسرے مرحلے کو سبوتاژ کیاگیا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے سکیورٹی اداروں نے سراغ لگایا کہ ڈرون ایجنسی نے کہا ں سے ڈرون فائر کیا،تو معلوم ہوا کہ ڈرون طیارہ باقاعدہ پاکستان کی حدود میں داخل نہیں ہوا بلکہ کسی دوسرے ممالک کے علاقے سے فائر کیاگیا۔

چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے کو کسی قسم کی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی تھی۔انہوں نے ڈی جی ایف آئی اے اور ان کے درمیان تلخ کلامی کی تمام خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ڈی جی ایف آئی اے کو کسی قسم کی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی تھی۔اس حوالے سے تمام خبریں بے بنیاد ہیں۔ ایف آئی اے آئیڈیل ادارہ نہیں ہے لیکن اس کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے۔