ملامنصورکی ہلاکت ایران‘امریکہ خفیہ منصوبہ؟

کیا ایران نے امریکا کے ساتھ کسی خفیہ ڈیل کے تحت ملا منصور کے قتل میں امریکیوں کی مدد کی ہے؟عرب نشریاتی ادارے کی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 24 مئی 2016 15:21

ملامنصورکی ہلاکت ایران‘امریکہ خفیہ منصوبہ؟

دوبئی(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔24مئی۔2016ء) افغان تحریک طالبان کے امیر ملا اختر منصور کے مبینہ طور پرایران سے پاکستان میں داخلے کے دوران امریکی ڈرون کے ذریعے نشانہ بنائے جانے اور ملا منصور کی ہلاکت کے بعد کئی سوالات ایک بار پھر اٹھنے لگے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ کہ کیا ایران نے امریکا کے ساتھ کسی خفیہ ڈیل کے تحت ملا منصور کے قتل میں امریکیوں کی مدد کی ہے؟عرب نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ملا منصور کو ایران سے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد نشانہ بنایا گیا مگر ایرانی وزارت خارجہ نے پاکستان کے اس دعوے کی سختی سے تردید کی ہے کہ ملا منصور کی ہلاکت میں اس کا کوئی ہاتھ ہے یا یہ کہ مقتول راہنماءامریکی حملے سے قبل ایران میں تھے۔

(جاری ہے)

تاہم ایران نے افغانستان کی اس پر تشدد تحریک کے ساتھ اپنے روابط کی تردید نہیں کی ہے۔پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا تھا کہ امریکی ڈرون حملے میں کوئٹہ کے قریب سرحدی علاقے میں ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت ولی محمد کے نام سے کی گئی ہے اور اس کے قبضے سے ملنے والا پاسپورٹ ایران میں داخلے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

وزارت خارجہ کا مزید کہنا ہے کہ21 مئی کو ایران، پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر ہلاک ہونے والے ولی محمد نامی شخص دراصل طالبان کے سربراہ ملا منصور ہی ہیں مگر انہوں نے اپنی شناخت خفیہ رکھنے کے لیے مختلف نام کے ساتھ پاسپورٹ اور شناختی کارڈز بنوا رکھے تھے۔دوسری جانب ایرانی وزارت خارجہ نے طالبان کے سربراہ کے دورہ ایران کی خبروں کی سختی سے تردید کی ہے تاہم تہران کی جانب سے پاکستان کی طرف سے مقتول کے پاسپورٹ اور اس پر ایک جعلی نام کی موجودگی کے بارے میں آنے والی اطلاعات کی تردید نہیں کی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی طالبان لیڈر کو افغانستان سے آتے دیکھا گیا ہے بلکہ نظریاتی اختلافات کے باوجود ایران اور طالبان کے درمیان کسی نہ کسی شکل میں تعلقات اور باہمی تعاون کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ایران اور افغان تحریک طالبان کے درمیان باہمی تعاون اور رابطوں کا سلسلہ ماضی میں مختلف چیلنجز سے جاری رہا ہے۔ کہیں یہ تعلقات شکوک وشبہات میں الجھے اور کہیں واضح اور نمایاں دکھائی دیتے رہے ہیں۔

مئی 2015ءکو ادارے نے ایک خبر میں دعویٰ کیا کہ طالبان کے سیاسی دفتر کے انچارج طیب آغا کی قیادت میں ایک وفد تہران کے دورے پر آیا ہے۔ اس وفد نے علاقائی مسائل بالخصوص افغان مہاجرین کے مسائل پر ایرانی حکومت سے تبادلہ خیال کیا۔ملا عمر کی وفات کے بعد ان کے جانشین بنائے جانے والے ملا اختر منصور تنظیم کے وہ واحد راہنماءہیں جنہوں نے 3روز ایران میں گذارے۔

انہوں نے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور پاسداران انقلاب کی قیادت کے ساتھ بھی تفصیلی بات چیت کی ہے۔طالبان کے اس وفد سے قبل 2014ءمیں طالبان کے ایک دوسرے وفد کی خفیہ طور پر تہران آمد کی اطلاعات آئی تھیں۔ 2012ءکو طالبان کے ایک وفد نے ایران میں صحوة الاسلامیہ کانفرنس میں بھی شرکت کی۔رپورٹ میں مزیدبتایا گیا ہے کہ مئی 2010ءکو افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے کمانڈر جنرل اسٹنلی مک کریسٹل نے نے الزام عائد کیا کہ ایران طالبان کو اسلحہ کی فراہمی کے ساتھ ساتھ جنگجووں کی عسکری تربیت بھی کررہا ہے۔

اسی سال مارچ میں امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے کہا کہ جنوبی قندھار میں طالبان کو ایران کی جانب سے بے پناہ اسلحہ اور گولہ بارود پہنچ رہا ہے۔رواں سال فروری میں افغان فورسز نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے صوبہ بامیان میں طالبان کے ایک کمپاونڈ سے ایرانی ساختہ بارودی سرنگیں اور دیگر اسلحہ کی بھاری مقدار قبضے میں لی ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے نے بامیان کے گورنر محمد طاھر ظہیر کا ایک بیان نقل کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ اگرچہ قبضے میں لی گئی تمام بارودی سنگیں تلف کردی گئی ہیں مگر ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اسلحہ ایران کی جانب سے طالبان کو فراہم کیا گیا تھا۔

ایران کے ساتھ خفیہ اور اعلانیہ تعاون کی خبروں کے جلو میں افغان طالبان کے سرکردہ کمانڈروں کی جانب سے بھی تہران کے ساتھ روابط کے دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔برطانوی جریدے "سنڈے ٹائمز" کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان اور ایران کے درمیان عسکری تعاون کا سلسلہ کئی سال پرمحیط ہے۔ اس تعاون میں طالبان جنگجووں کو ایرانی فوجیوں کی نگرانی میں دی جانے والی عسکری تربیت بھی شامل ہے۔

اس کے علاوہ جنوبی افغانستان میں نیٹو فوجیوں پر حملوں کے طریقہ کار، بندوقوں اور کلاشنکوفوں کا استعمال، دیسی ساختہ بموں کے استعمال کے طریقہ کارے کے بارے میں ایران طالبان کی ٹریننگ کرتا رہا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایرانی عسکری حکام نے طالبان کو تربیت دی کہ وہ چیک پوسٹوں پر کیسے حملے کریں، پہاڑی علاقوں میں موجود نیٹو اور غیرملکی فوجیوں کو کیسے نشانہ بنائیں نیز صحرائی اور میدانی علاقوں میں کلاشنکوف اور دوسرے ہتھیاروں کا استعمال کیسے کریں۔

برطانوی جریدے کے مطابق طالبان کے ایک سنیئر عہدیدار نے کہا کہ اگرچہ ہماری تاریخ اور مذہب ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگر ہمارا ہدف ایک ہے۔ ہم دونوں ایران، طالبان امریکیوں کو قتل کرتے ہیں۔سنڈے ٹائمز سے طالبان کے تین اہم جنگجووں نے تفصیلی بات چیت کی اور کہا کہ انہیں ایران میں ایک کیمپ میں عسکری تربیت دی گئی۔ طالبان کمانڈر نے بتایا کہ وہ 20 دوسرے جنگجووں کے ہمراہ جنوبی پاکستان اور وہاں سے ایران کی مغربی سرحد عبور کرکے ایران کے شہر زاھدان میں داخل ہوئے۔

دوسرے کمانڈر نے بتایا کہ وہ ایک گروپ کے ساتھ ایران کے شہر نمروز میں تین روز تک ٹھہرے۔ یہ شہر صوبہ سیستان بلوچستان کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ اس کی وجہ شہرت قبائلی لڑائیاں اور منشیات کی اسمگلنگ بتائی جاتی ہے۔ افغان طالبان نے انسانی اسمگلروں کی مدد حاصل کی اور ایران پہنچنے میں مدد دینے کے لیے اسمگلروں کو 500 ڈالر ادا کیے تھے۔ انسانی اسمگلر تمام جنگجووں کو پک اپ گاڑیوں کی مدد سے زاہدان لے کرگئے اور وہاں سے انہیں ایک فوجی کیمپ میں لے جایا گیا۔

غزنی سے واپس آنے والے طالبان کمانڈر نے بتایا کہ آغاز سفر میں ہمیں سفری اخراجات خود برداشت کرنا پڑتے ہیں مگر ایران پہنچ جانے کے بعد ایرانی حکام ہمیں اس کی ادائیگی کردیتے ہیں۔افغانستان میں طالبان کی حکومت کے عرصے میں ایران اور طالبان کے درمیان تعلقات سرد مہری اور تناو کا شکار رہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ سب سے اہم وجہ ایران کا تحریک طالبان کے حوالے سے معاندانہ رویہ بتایا جاتا رہاہے۔

طالبان ایران پر اپنے مخالفین کی مدد کا الزام عائد کرتے رہے۔ اس کے علاوہ دونوں کے درمیان مسلکی اور مذہبی اختلافات بھی تناو کا موجب رہے ہیں۔ 1997ءاور 1998ءمیں طالبان اور ایران کے درمیان کشیدگی اپنے نطقہ عروج پر رہی۔ 1997ءکو طالبان میں کابل میں موجود ایرانی سفیر کو وہاں سے نکال باہر کیا اور ایران پر افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور طالبان مخالف شمالی اتحاد کی مدد جیسے الزامات عائد کئے گئے۔

دوطرفہ کشیدگی میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوگیا جب مزار شریف میں ایرانی قونصل خانے پر طالبان کے حملے میں دو ایرانی سفارت کار ہلاک ہوگئے۔کشیدگی اور آگے بڑھی تو افغانستان اور ایران کی سرحد پر جنگ کا ماحول پیدا ہوگیا۔ ایران نے طالبان سے لڑنے کے لیے پاسداران انقلاب پر مشتمل 70 ہزار فوجیوں کا ایک لشکر جرار تیار کیا جب کہ طالبان نے اس کا مقابلہ 25ہزار جنگجووں اور اسکڈ میزائلوں سے کیا۔

بعد ازاں ایران نے یرغمال بنائے گئے دس ایرانی رہا کیے تو دو طرفہ کشیدگی میں کمی آنا شروع ہوگئی۔ اس دوران طالبان اور ہزارہ قبائل کے درمیان بھی مفاہمت ہوئی جس کے نتیجے میں تہران کے ساتھ کشیدگی میں نمایاں کمی آگئی تھی۔تہران اور طالبان کے درمیان دشمنی اور مخالفت کا سلسلہ 2001ءمیں اس وقت تک جاری رہا جب تک کابل پر طالبان کی حکومت قائم رہی۔

جب امریکا کی قیادت میں عالمی فوج نے افغانستان پر حملہ کیا تو ایران اور طالبان کے درمیان تعلقات اور تعاون کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ ماضی کی دشمنی ختم اور دو طرفہ دوستی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا جو اب بھی جاری ہے۔طالبان راہنماوں اور وفود کی ایران آمد ورفت کا سلسلہ امریکی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا بھی مرکز بنا۔ امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل نے امریکی، افغان اور یورپی حکام کے حوالے سے بتایا کہ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران ایران طالبان تحریک کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔

حکام کا دعویٰ ہے کہ ایران نہ صرف طالبان جنگجووں کو عسکری تربیت اور اسلحہ مہیا کرتا ہے بلکہ جنگجووں کی مالی مدد بھی کررہا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران طالبان کی مدد اس لیے نہیں کررہا ہے کہ وہ انہیں دوبارہ افغانستان میں اقتدار تک پہنچانے کا خواہاں ہے بلکہ ایران خطے میں امریکی اثرونفوذ کم کرنے کے لیے ایسا کررہا ہے۔ اس کے علاوہ طالبان کی مدد اس لیے بھی کی جا رہی ہے تاکہ خطے میں داعش کو اپنے پنجے پھیلانے سے روکا جاسکے۔

متعلقہ عنوان :