پاکستان کی علاقائی سالمیت کا احترام کرکرتے ہیں مگر شدت پسندوں کے خلاف کاروائیاں جاری رکھی جائیں گی:امریکی محکمہ خارجہ

ملا منصورپر حملہ پاکستان کے علاقے میں ہوا یا افغانستان کے ‘ابھی کچھ نہیں بتا سکتے‘ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس حملے کے بعد طالبان کو شکست ہو گئی ہے:ترجمان

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 24 مئی 2016 12:24

پاکستان کی علاقائی سالمیت کا احترام کرکرتے ہیں مگر شدت پسندوں کے خلاف ..

واشنگٹن(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔24مئی۔2016ء) امریکہ نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے لیکن وہ ان شدت پسندوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا جو امریکی افواج کے خلاف براہِ راست حملوں کے منصوبے بناتے اور اس کی ہدایت دیتے ہیں‘حملہ کے مقام کے بارے میں لاعلم ہیں ملا منصور کو پاک افغان سرحدی علاقے میں نشانہ بنایا گیا تاہم ابھی نہیں بتا سکتے کہ وہ علاقہ افغانستان کا ہے یا پاکستان کا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس حملے کا بنیادی مقصد ایسے کسی بھی شخص کو راستے سے ہٹانا ہے جو خطے میں امریکہ اور افغان افواج کے خلاف شدت کے ساتھ حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہو۔

(جاری ہے)

مارک ٹونر سے جب یہ پوچھا گیا کہ ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے شخص کا جو پاسپورٹ برآمد ہوا وہ کسی اور کے نام کا تھا تو کیا ملا منصور ایران گئے تھے؟ اس پر ان کا کہنا تھا مجھے نہیں معلوم میں نے ایسی خبریں دیکھی ہیں لیکن میں اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں دے سکتا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان سے اس سوال پر کہ کیا اس واقعہ سے طالبان پر کیا اثر پڑے گا تو انھوں نے کہا وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس حملے کے بعد طالبان کو شکست ہو گئی ہے تاہم یہ ان کے لیے یہ ایک واضح پیغام ہے کہ اگر وہ امریکی اور افغان افواج کے خلاف حملے کریں گے تو انھیں نشانہ بنایا جائے گا اور انھیں محفوظ پناہ گاہیں نہیں ملیں گی۔مارک ٹونر کے مطابق اس سے یہ پیغام بھی واضح ہوتا ہے کہ طالبان ہر صورت اس بات کا فیصلہ کریں کہ ان کا مستقبل کیا ہو گا؟ اور یہ افغانستان کے لیے ایک پرامن، سیاسی مستقبل کا حصہ بننے کے لیے جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات شروع کر سکتے ہیں اور ہم اس کی مکمل حمایت کریں گے۔ میڈیا بریفنگ کے دوران جب ایک صحافی نے مارک ٹونر سے سوال کیا کہ ملا منصور کو پاک افغان سرحد کے کس طرف نشانہ بنایا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں ابھی یہ واضح معلومات نہیں ہیں کہ اصل میں ڈرون حملہ کہاں ہوا۔مارک ٹونر کے مطابق وہ ابھی صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈرون حملہ پاک افغان سرحدی علاقے میں کیا گیا لیکن یہ نہیں بتا سکتے کہ آیا یہ علاقہ پاکستان کا تھا یا افغانستان کا۔

ترجمان محکمہ خارجہ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا انہیں پاکستان کے اس دعوے پر شک ہے کہ ڈرون حملہ ان کی سرحد میں ہوا، تو مارک ٹونر نے کہا کہ پاکستانی حکومت اپنے حوالے سے خود بات کرسکتی ہے، میں اس کے دعوے پر شک نہیں کر رہا، لیکن ابھی تک میرے علم میں صرف یہ بات ہے کہ ڈرون حملہ پاک افغان سرحدی علاقے میں کیا گیا۔ترجمان امریکی محکمہ خارجہ سے سوال کیا گیا کہ اپنے امیر کی ہلاکت کے بعد کیا طالبان امن مذاکرات میں شامل ہوں، جس کے جواب میں مارک ٹونر نے کہا کہ اب ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

ملا منصور پر حملے کے طالبان پر اثر کے حوالے سے مارک ٹونر نے کہا کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس حملے کے بعد طالبان کو شکست ہو گئی ہے، تاہم یہ ان کے لیے واضح پیغام ہے کہ اگر وہ امریکی اور افغان افواج کے خلاف حملے جاری رکھیں گے تو انہیں بھی نشانہ بنایا جائے گا اور انہیں محفوظ پناہ گاہیں نہیں ملیں گی۔مارک ٹونر کا کہنا تھا کہ اس حملے میں طالبان کے لیے یہ پیغام بھی ہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور کیا وہ افغانستان کے ایک پرامن سیاسی مستقبل کا حصہ بنیں گے۔