سیاست ،جدوجہد اور عدل کے درمیان تسلسل ٹوٹ چکا ہے ، موجودہ حالات میں سیاسی کارکن مایوس اور جماعتیں تتر بتر ہو رہی ہیں ، آمریت کے دورمیں پھانسی کے پھندے چڑھنے ، کوڑے کھانے اوراٹک قلعے کی صعوبتیں برداشت کرنے والے تحسین کے مستحق ہیں ، ایوب خان ،یحییٰ خان اور ضیائی آمریت کے ظلم کی برصغیرمیں مثال نہیں ملتی ، جالب کی شاعری نے ملکی حالات غریب اور محنت کش اور مظلوم لوگوں کے مسائل کی عکاسی کی اور پسے طبقات کی نشاندہی کی ، امتیازی قوانین پر مؤرخ ہمیں سب سے بڑا مجرم قرار دے گا

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کا معروف شاعر حبیب جالب کی ادبی خدمات بارے تقریب سے خطاب

پیر 23 مئی 2016 22:37

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔23 مئی۔2016ء ) چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ سیاست ،جدوجہد اور عدل کے درمیان تسلسل ٹوٹ چکا ہے ، آج کے حالات میں سیاسی کارکن مایوس اور سیاسی جماعتیں تتر بتر ہو رہی ہیں ، آمریت میں جن لوگوں نے پھانسی کے پھندے چنے اور اپنے پیٹھوں پر کوڑے کھائے ،اٹک قلعے کی صعوبتیں برداشت کیں مگر اصولوں پر سودے بازی نہیں کی وہ لوگ قابل تحسین ہیں ، ایوب خان ،یحییٰ خان ضیائی آمریت کو دیکھیں تو برصفیر میں اس ظلم کی مثال نہیں ملتی ، جالب کی شاعری نے ملکی حالات غریب اور محنت کش اور مظلوم لوگوں کے مسائل کی عکاسی کی اور پسے ہوئے طبقات کی نشاندہی کی ، آج ملک میں امیر اور غریب کے لئے الگ الگ قوانین موجود ہیں ، اشرافیہ سے جن لوگوں کا تعلق ہے ان کے لئے علیحدہ جبکہ غریب اور پسے ہوئے طبقے کے لئے علیحدہ قانون بنایا گیا ہے ، جبکہ مؤرخ تاریخ لکھے گا تو ہمیں سب سے بڑا مجرم قرار دے گا، آج ملک تباہی کی طرف جارہا ہے اگر روکا نہیں گیا یا سوال نہیں اٹھایا گیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

(جاری ہے)

وہ پیر کو معروف شاعر حبیب جالب کی ادبی خدمات کے حوالے سے خراج تحسین پیش کرنے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے ۔ اس موقع پر وفاقی وزیر میر حاصل خان بزنجو سمیت سابق سینیٹر افراسیاب خٹک اور سینیٹر فرحت اﷲ خان بابر موجود تھے ۔ وفاقی وزیر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ 80کی دہائی میں اٹھنے والی تحریک کے اصل محرک حبیب جالب تھے اور ان کی شاعری نے عوام کو اور زیادہ متحرک کیا ۔

سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ ہمیں آزادی بھی ملی مگر ہمارا نظام نہیں بدلا، نیلی آنکھوں والے انگریز چلے گئے مگر کالی آنکھوں والے انگریز چھوڑ گئے ۔ حبیب جالب کی شاعری نئی نسل تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے ۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ جالب اپنے آپ میں ایک ادارہ تھے کا ش میں بھی حبیب جالب کے ساتھ ہوتا۔جالب کی شاعری ملکی حالات اور غریب محنت کش اور مظلوم طبقے کے ساتھ رشتے کی عکاسی کرتی تھی ۔

پاکستان میں مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کی نشاندہی کرتی تھی ۔ ایوب خان ،یحییٰ خان اور جنرل ضیاء کے دور آمریت میں جتنا ظلم ہوا ہے اس کی مثال برصغیر کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ سیاسی کارکن اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والوں نے جبر کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے پھانسی کے پھندے چومے اور اپنی پیٹھوں پر کوڑے کھائے ۔اٹک جیل ، میانوالی اور حیدرآباد جیل کی صعوبتیں برداشت کیں مگر اصولوں پر سودے بازی نہیں کی ۔

ہمیں کوئی آج جالب اور فیض نظر نہیں آتا۔ یہ جو خلاء پیدا ہوا اس نے ابتری فضاء جو جنم دیا۔ آج اگر کوئی ایسی باتیں کرتا ہے تو اسے بیوقوف قراردیا جاتا ہے ۔ جالب کی جدوجہد دستور کے حوالے سے تھی جس میں غریب اور محنت کش کو اس کے حقوق فراہم کرنے کی بات کی تھی ۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور بدعنوانی کے خلاف ایک ایسے معاشرے کو تشکیل دینے کی کوشش تھی جس میں قانون کی حکمرانی ،غریب اور امیر کے فرق کو ختم کرنا شامل تھے مگر افسوس آج کا پاکستان جالب کا پاکستان نہیں ہے ۔

آج کے پاکستان میں غریب اور امیر کے درمیان جو فرق ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔رولنگ ایلیٹ اور محنت کش طبقے کے درمیان فرق ہے ۔ آج امیر کروڑوں کی گھڑی پہنتا ہے اور غریب کابچہ پینے کے صاف پانی کو ترستا ہے ۔ پاکستان کے قانون میں اشرافیہ کے لئے زیادہ سہولتیں اور غیر اشرافیہ کے لئے کوئی سہولت نہیں ہے ۔ آج قانون کی عمل داری کے لئے ایسے پیمانے بنائے گئے ہیں جس میں امیر ،سول اور ملٹری بیوروکریسی کی بنسبت غریب کے لئے کچھ بھی نہیں ہے ۔