پاکستان میں یومیہ0 45ملین مکعب فٹ ایل این جی درآمد کی جارہی ہے ، اسے آئندہ دو سالوں میں بڑھا کر 2.4ارب مکعب فٹ کردیا جائیگا،حکومت ملک میں گیس کی قلت پر قابو پانے کیلئے مقامی ذخائر بھی تلاش کررہی ہے، ایل این جی توانائی بحران سے نمٹنے کیلئے ایک سستا حل ہے،تاپی منصوبہ حقیقت میں بدل رہاہے،پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ایران پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا،صنعتوں اور بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کو بلاتعطل گیس فراہم کی جارہی ہے

وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کا ایل این جی کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے خطاب

پیر 23 مئی 2016 19:42

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔23 مئی۔2016ء) وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان میں اس وقت یومیہ0 45ملین مکعب فٹ ایل این جی درآمد کی جارہی ہے جسے آئندہ دو سالوں میں بڑھا کر 2.4ارب مکعب فٹ کردیا جائے گا،حکومت ملک میں گیس کی قلت ختم کرنے کیلئے مقامی ذخائر کو بھی تلاش کررہی ہے، ایل این جی توانائی بحران سے نمٹنے کیلئے ایک سستا حل ہے،تاپی منصوبہ حقیقت میں بدل رہاہے،پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ایران پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا،صنعتوں اور بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کو بلاتعطل گیس فراہم کی جارہی ہے۔

پیر کو اسلام آباد میں ایل این جی کے حوالے سے منعقدہ ایک سیمینار سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے وزیرپٹرولیم وقدرتی وسائل شاہدخاقان عباسی نے کہا ہے کہ حکومت گیس کی قلت کو دور کرنے کیلئے گیس کے مقامی ذخائر کو تلاش کررہی ہے،پاکستان میں یومیہ 450ملین کیوبک فٹ ایل این جی درآمد کی جارہی ہے جو اگلے سال2 تک بڑھا کر2.4ارب کیوبک فٹ کر دی جائے گی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ صنعتوں اور بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کو بلاتعطل گیس فراہم کی جارہی ہے،قطر سے کم ترین ریٹ پر ایل این جی کی برآمد کی جارہی ہے،ایل این جی توانائی کے بحران سے نمٹنے کیلئے سستا حل ہے۔تاپی گیس منصوبہ حقیقت میں تبدیل ہورہاہے لیکن اس کو مکمل ہونے میں 4سال سے زائد وقت درکار ہے،ایل این جی پاکستان میں سستا ترین ایندھن ہے،پاکستان کو توانائی کی ضروریات کے حوالے سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے،پاکستان کو قلیل المدت اور طویل المدت ایل این جی کی برآمد کے حوالے سے معاہدوں کی ضرورت ہے،عالمی پابندیوں کی وجہ سے پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ تاخیر کا شکارہوا۔

تقریب سے پٹرولیم انسٹیوٹ آف پاکستان کے سی ای او مارک تھر پر اور دیگر کمپنیوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔