خواتین میں اعتماد کی بحالی کیلئے ہر سرکاری ونیم سرکاری اور سماجی اداروں کے تعاون اور اپنا بھرپور کردارادا کرنے کی ضرورت ہے، جسٹس (ر) پیر علی شاہ

جمعہ 20 مئی 2016 22:37

حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔20 مئی۔2016ء)صوبائی محتسب سندھ ریٹائرڈ جسٹس سید پیر علی شاہ نے کہا ہے کہ خواتین میں اعتماد کی بحالی اور ادارے سے متعلق شعور بیدار کرنے کے لیے ہر سرکاری ونیم سرکاری اور سماجی اداروں کے تعاون اور اپنا بھرپور کردارادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کو ملازمت کے مقامات پر ہونے والی زیادتیوں کو ختم کر کے خواتین کو پُرسکون ماحول فراہم کیا جاسکے، خواتین کی ملازمت نہ کرنے کی اہم وجہ ملازمت کے مقامات پر ہراساں ہونے کا خوف ہے۔

وہ ملازمت کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ فراہم کرنے والے ادارے کی طرف سے سابق ضلع ناظم سیکریٹریٹ میں منعقدہ آگاہی سیمینار سے صدارتی خطاب اور میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔سید پیر علی شاہ نے بتایا کہ ہر انسان عزت نفس رکھتا ہے اس لیے وہ خود سے ہونے والی نا انصافی کو بدنامی کے ڈر سے چھپانے کی کوشش کرتا ہے باالخصوص خواتین اس معاملے میں بہت حساس ہوتی ہے اس لیے اس قانون میں یہ سہولتیں دی گئی ہیں کہ زیادتی کا نشانہ بننے والی عورت کا بھائی، باپ یا شوہر شکایت درج کرواسکتا ہے ، انہوں نے کہا کہ خواتین کو اپنے اندر اعتماد پیدا کرنا ہو گا تاکہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کے خلاف آواز بلند کر سکیں اور ان کے اس عمل سے دوسری خواتین کو بھی حوصلہ ملے گا۔

(جاری ہے)

میڈیا سے گفتگو میں سید پیر علی شاہ نے کہا کہ یہ سیمینار حیدرآباد ڈویژن میں ادارے کی جانب سے تیسرا سیمینار ہے اس کا مقصدسرکاری ، نجی اور سماجی اداروں میں تشکیل کردہ سہ رکنی انکوائری کمیٹی کے اراکین سے ملاقات کر کے انہیں اس قانون کی افادیت اور اس پر عملدرآمد سے متعلق معلومات فراہم کرنا ہے جبکہ آج کے اس سیمینار میں مختلف لوگوں کی جانب سے کئی تجاویز پیش کی گئی ہیں جگہ مستقبل میں اس قانون میں شامل کر کے اس قانون کو خواتین کے لیے مزید مفید بنایا جائے گا، ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اس وقت تک ادارے میں 225 کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں جن میں سے 196 کیسز نمٹائے گئے ہیں جبکہ بقیہ 24 کیسز زیر سماعت ہیں اور اب ہر ضلع میں مذکورہ ادارے کا ڈسٹرکٹ کمپلین سیل قائم ہونے کے بعد کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے، انہوں نے بتایا کہ عوام کا ادارے پر اعتماد ہے کیوں کہ ہم اپنی محنت اور کام کے ذریعے لوگوں کو فوری طور پر انصاف فراہم کر رہے ہیں، سزا سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ دو اقسام کی سزائیں ہیں مائینر اور میجر مائینر سزاؤں میں زیادہ سے زیادہ چارج شیٹ میں جرم کا تذکرہ کرنا اور میجر سزاؤ ں میں زیادہ سے زیادہ شوکاز نوٹس دے کر نوکری سے فارغ کرنے جیسی سزائیں شامل ہیں، ازخود نوٹس کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے اور ہم اس کے مجاز نہیں، انہوں نے کہا کہ شکایت درج کرنے والی خواتین کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کیا جاتا ہے نہ ان کا تبادلہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان سے یہ شکوہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ نے مجھ پر کیس کیوں کیا، سیمینار میں سید عبداﷲ شاہ ، شمس الدین بھیو ، عظمیٰ کریم ، شہباز انصاری کے علاوہ نجی و سرکاری ، سماجی تنظیموں کے نمایندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔