نومولود بچے کی پیدائش کی خوشی میں تیار کی گئی مٹھائی میں فصلوں کی جڑی بوٹیاں مارنے والی خطرناک زہر کلورفینا پر ڈال دی گئی تھی ،اس سے زہر آلود لڈو کھانے والے 100مقامی افراد متاثر ہوئے

اس المیے سے سبق حاصل کر کے نظام کوبہتر بنانے کی ضرورت ہے ،ہمیں عام لوگوں کو برابری کااحساس دینا ہو گا‘ کمیٹی سربراہ جسٹس (ر) اعجاز احمد چوہدری کا خطاب

جمعرات 19 مئی 2016 21:33

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔19 مئی۔2016ء)لیہ کی تحصیل کروڑ لعل عیسن میں زہر آلود مٹھائی کھانے سے 31افراد کی المناک موت کی وجوہات کے تعین اور زہر خورانی سے ہلاکتوں کا تدارک کرنے کے حوالے سے وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف کی تشکیل کردہ خصوصی انکوائری کمیٹی کا اجلاس یہاں سول سیکرٹریٹ لاہور میں جسٹس (ر) اعجاز احمد چوہدری کی صدارت میں منعقد ہوا ۔

اجلاس میں کمیٹی کے کنوینر ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب شمائل احمد خواجہ اور ارکان کمیٹی سیکرٹری پرائمری ہیلتھ علی جان ،سیکرٹری آئی اینڈ سی فراست اقبال ،ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ فیصل شاہکار ،ڈی جی پنجا ب فرانزک سائنس اتھارٹی ڈاکٹر محمد اشرف طاہر ،سابق ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی ساجد چوہان ،پیسٹی سائیڈ سپیشلسٹ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد پروفیسر ڈاکٹر سہیل احمد اورمعروف پروفیسر آف میڈیسن ڈاکٹر عیص محمد،ضلع لیہ کے ڈسٹرکٹ کو آرڈینیشن آفیسر ،ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر،ای ڈی اوز ہیلتھ اینڈ ایگری کلچر لیہ کے علاوہ کین کمشنر پنجاب وقاص عالم نے شرکت کی جنہیں پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کا اضافی چارج بھی دیا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

اجلاس کے دوران جسٹس (ر) اعجازاحمد چوہدری نے سانحہ لیہ کے بارے میں تمام متعلقہ اداروں کی تیار کردہ رپورٹس کا تفصیلی جائزہ لیا جن میں بتایا گیا ہے کہ نومولود بچے کی پیدائش کی خوشی میں تیار کی گئی مٹھائی میں فصلوں کی جڑی بوٹیاں مارنے والی خطرناک زہر کلورفینا پر ڈال دی گئی تھی جس سے زہر آلود لڈو کھانے والے 100مقامی افراد متاثر ہوئے ۔

مٹھائی کے زہر آلود ہونے کا پتہ چلتے ہی ان میں سے پچاس کے قریب افراد نے اپنے طور پر زیادہ مقدار میں دیسی گھی روایتی ٹوٹکے کے مطابق استعمال کیا جس سے الٹیاں اور دست آنے سے زہر کا زیادہ تر حصہ ان کے جسم سے نکل گیا کیونکہ گھی کا روغنی جز وکسی حد تک کلورفینا پر جیسی خطر ناک زہر کو جذب کر لیتاہے وگرنہ اس زہر کا کوئی تریاق سرے سے موجود ہی نہیں ۔

کروڑ لعل عیسن کے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال اور لیہ کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں 58مریضوں کے معدے کی صفائی کی گئی لیکن زہر خورانی کی مقدر اتنی زیادہ تھی کہ انہیں نشتر ہسپتال ملتان اور جناح ہسپتال لاہور میں جدید ترین علا ج معالجے کے باوجود بچایا نہ جا سکا اور ان میں سے 31افراد کی موت واقع ہو گئی ۔یہ اموات زہر کی وجہ سے اعصابی نظام کے شل ہونے اورونٹی لیٹرزپر رکھنے کے باوجود نظام تنفس بحال نہ رہنے کے باعث واقع ہوئیں ۔

انکوائری کمیٹی کے سربراہ جسٹس (ر) اعجازاحمد چوہدری نے اس موقع پر مستقبل میں ایسے حادثات رونما ہونے سے بچنے کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ سکولوں کے طلبا و طالبات کے توسط سے حفظان صحت اور زہر خورانی سے بچنے سے متعلق شعور اجاگر کیا جائے تا کہ وہ اپنے گھر جا کر والدین کو بھی صحتمند زندگی جینے کاڈھنگ بتاسکیں ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو طبی سہولتوں کا دائرہ کار بڑے شہروں سے آگے پسماندہ علاقوں تک بھی پھیلانا چاہیے ۔ہر سرکاری ملازم اپنے کام کو مجبوری نہیں بلکہ نیکی اور خدمت سمجھ کرانجام دے۔ہمیں عام لوگوں کو برابری کااحساس دینا ہو گا اور معاشرے کو یہ شعور بھی دینا ہو گا کہ ہنگامی صورتحال میں فوری طور پر موثر روایتی اقدامات بروئے کار لائیں ۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ گرمیوں میں ہیضہ پھیلنے کی صورت میں مائیں اپنے بچوں کو زیادہ مقدار میں دہی کھلایا کرتی تھیں جس سے الکلی کے ماحول میں پنپنے والے ہیضے کے جراثیم دہی کی تزابی خاصیت کی بدولت بڑھنے نہیں پاتے تھے جبکہ پیٹ خراب ہونے کی صورت میں دودھ یاکچی لسی پینے والوں کا مرض مزید شدت اختیار کر جاتا ہے کیونکہ دودھ خود الکلی کی خاصیت رکھتا ہے -اجلاس میں زہر خورانی کے سانحہ کے حوالے سے مختلف سفارشات بھی تیار کی گئیں جن میں کہا گیاہے کہ ا س سانحے پر محض رونا دھونا کافی نہیں بلکہ اس المیے سے سبق حاصل کر کے سسٹم کوبہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔

جسٹس (ر) اعجاز احمد چوہدری نے ریمارکس دئیے کہ ہر آدمی کو یہی نہیں سوچناچاہیے کہ مجھے اپنا گھر محفوظ بنانا ہے بلکہ اس سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا کہ ہمیں پوری سوسائٹی کو محفوظ بنانا ہے ۔