سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے منتقلی اختیارات کا سی سی آئی کا مستقل سیکرٹریٹ قائم نہ ہونے پر تشویش کا اظہار

18ویں ترمیم آئین کا حصہ ہے ،مرکز صوبوں کو منتقل وزارتوں کو دوسرے نام سے رکھ کر آئین سے تجاوز کر رہا ہے ، اٹھارویں آئینی ترمیم پر مکمل عمل درآمد نہ کرکے وفاقی حکومت آئین کی خلاف ورزی بھی کر رہی ہے، چیئرمین کمیٹی میر حاصل بزنجو کا اجلاس سے خطاب

بدھ 18 مئی 2016 20:05

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔18 مئی۔2016ء ) سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے منتقلی اختیارات کو سینیٹ سیکرٹریٹ کی طرف سے منتقلی اختیارات کے حوالے سے مسائل ،منصوبہ بندی کے علاوہ 11اہم نکات کی بریفنگ دی گئی جن میں تیل و گیس کی مشترکہ ملکیت ،ہائر ایجوکیشن کمیشن،متروکہ وقف املاک،ای او آئی بی،دوست ممالک کی اہم ترین شخصیات کیلئے شکار گاہوں کے علاقوں ، پاسکو،پاکستان سپورٹس بورڈ ،ایوان اقبال ،نیشنل کالج آف آرٹس،پورٹ اتھارٹیز کے صوبوں اور وفاق کے درمیان معاملات شامل ہیں ، 1973کے آئین ،وفاق اور صوبوں کے درمیان رابطہ کاری اور فیصلوں کے حوالے سے بھی آگا ہ کیا گیا،کمیٹی کا مشترکہ مفا دات کونسل( سی سی آئی) کا مستقل سیکرٹریٹ ابھی تک قائم نہ کرنے پر حیرانی کا ظہار کیا ،چیئرمین کمیٹی سینیٹر میر حاصل خان بزنجو نے کہا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم آئین کا حصہ ہے ،مرکز صوبوں کو منتقل کی گئی وزارتوں کو دوسرے نام سے رکھ کر آئین سے تجاوز کر رہا ہے ، اٹھارویں آئینی ترمیم پر مکمل عمل درآمد نہ کرکے وفاقی حکومت آئین کی خلاف ورزی بھی کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

وہ بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤ س اسلام آباد میں منتقلی اختیارات کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے ۔کمیٹی نے صوبوں کو منتقل کی گئی وفاقی وزارتوں جیسے خوراک کو تحفظ خوراک ،وزارت لیبر کو انسانی وسائل اور صحت کو تحفظ صحت کا نام دے کر ابھی تک برقرار رکھا گیا ہے۔چیئرمین کمیٹی نے سیکرٹری کیبنٹ ندیم احسن افضل سے لوکل رورل ڈویلپمنٹ ،پاپولیشن ویلفیئر،ہیلتھ،تعلیم،لائیو سٹاک،ٹورازم ، انوائرمنٹ،سپورٹس کی وزارتوں کے حوالے سے ایک ایک کر کے سوال کیا کہ کیا یہ وفاقی وزارتیں صوبوں کو منتقل کر دی گئی ہیں یا ابھی تک موجود ہیں ۔

سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے تسلیم کیا کہ مختلف وزارتوں کو نئے ناموں سے ابھی تک برقرار رکھا گیا ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جتنی وزارتیں صوبوں کو منتقل کی گئیں یا جتنے محکمے صوبوں کو گئے اس سے کہیں ذیادہ وزارتیں اور محکمے بنا دی گئی ہیں ۔کمیٹی اجلاس میں سینیٹرز کرنل (ر)طاہر حسین مشہدی،نثار محمد،الیاس احمد بلور، کامل علی آغا،تاج حیدر،سردار یعقوب خان ناصر،محمد عثمان خان کاکڑ،محمد تنویر خان کے علاوہ سیکرٹری کیبنٹ ندیم احسن افضل کے علاوہ اعلی افسران نے شرکت کی ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کی مدد اور ہدایات فنکشنل کمیٹی کو حاصل ہیں ۔سینیٹ چیئرمین کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے پیشکش کی ہوئی ہے کہ کمیٹی جس وقت بھی محسوس کریگی اجلا س میں خود شرکت کیا کرینگے۔چیئرمین کمیٹی نے انکشاف کیا کہ اٹھارویں ترمیم مکمل کرتے وقت جہاز رانی اور بندرگاہوں کے حوالے سے نیشنل پارٹی، پختون خواہ، اے این پی،ایم کیو ایم کا موقف تھا کہ دنیا میں تمام بندرگاہیں میونسپل کارپوریشنز چلاتی ہیں جس طرح دوبئی اور ہالینڈ اور بندرگاہیں صوبائی معاملہ ہیں لیکن پی پی پی اور ن لیگ نہیں مانی۔

جس کی وجہ سے ایکٹ پر رضا مندی ہوئی جس کے تحت گوادر پورٹ کا چیئرمین وزیر اعلی صوبہ بلوچستان کو بنانے کا فیصلہ ہوا۔کمیٹی اجلا س میں سینیٹ سیکرٹریٹ کی طرف سے منتقلی اختیارات کے حوالے سے مسائل منصوبہ بندی کے علاوہ 11اہم نکات کی بریفنگ دی گئی۔جن میں تیل و گیس کی مشترکہ ملکیت ،ہائر ایجوکیشن کمیشن،متروکہ وقف املاک،ای او آئی بی،دوست ممالک کی اہم ترین شخصیات کیلئے شکار گاہوں کے علاقوں ، پاسکو،پاکستان سپورٹس بورڈ ،ایوان اقبال ،نیشنل کالج آف آرٹس،پورٹ اتھارٹیز کے صوبوں اور وفاق کے درمیان معاملات شامل تھے۔

آئینی ماہر اور اٹھارویں ترمیم پر تحقیق کرنے والے ظفر اﷲ خان نے شرکاء کو 1973کے آئین ،وفاق اور صوبوں کے درمیان رابطہ کاری اور فیصلوں کے حوالے سے بریفنگ دی۔سینیٹر چوہدری تنویر نے کہا کہ آگے بڑھنے کیلئے پہلے وسائل کی نشاندہی ضروری ہے ۔ کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ چھ سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اٹھارویں ترمیم پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ۔

وفاق اور وفاقی حکومت کی طرف سے جان بوجھ کر عمل درآمد کو روکا جا رہا ہے اور کہا کہ صوبے بھی اپناحق لینے کیلئے جاگیں۔سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ جو مرکز کے فائدے میں محکمے تھے رکھ لئے گئے اور جو صوبوں کے نقصان میں تھے جلد صوبوں کے حوالے کر دیئے گئے اور کہا کہ صرف اسلام آباد شہر کیلئے وزارت کیڈ قائم کی گئی ہے ۔حالانکہ میئر کا نظام قائم ہو چکا ہے اتھارٹیز ،کارپوریشنز اور بورڈ میں صوبوں کی80 فیصد نمائندگی نہیں۔

صوبوں سے تیل و گیس کی پیداوار ،آمدن ا ور قیمت نہیں بتائی جا رہی ،ریونیوصحیح نہیں بتایا جا رہا ،بیرونی امداد اربوں کھربوں ڈالر میں ملتی ہے ۔صوبوں کو کچھ پتا نہیں اور کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں نے بھی قانون سازی نہیں کی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہر صوبے کے پاس جائینگے ۔ معاملات کو درمیان میں نہیں چھوڑا جا سکتا ،چاروں صوبائی چیف سیکرٹریز کو ساتھ ملایا جائیگا۔

بین الصوبائی رابطہ وزارت اور کیبنٹ ڈویژن سے بھی معاونت لی جائیگی۔ورکرز ویلفیئر فنڈز کے حوالے سے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پنجاب اور سندھ حکومتوں کی تجویز این ایف سی کے تحت تقسیم ہے ۔خیبر پختون خواہ اور بلو چستان حکومت موجود میکنزم پر ہی عمل چاہتے ہیں۔کمیٹی اجلاس میں سینیٹ سیکرٹریٹ کی بریفنگ میں سیکرٹری کمیٹی ربیعہ انور نے آگاہ کیا کہ پاکستان میڈیکل اور ڈینٹل کونسل کے بل ،تیل و گیس کی مشترکہ ملکیت اور ایچ ای سی کے حوالے سے ایوان بالا میں توجہ دلاؤ نوٹسز اور نقطہ اعتراضات اٹھائے گئے۔

58فیڈرل سبجیکٹ کے حوالے سے 18آیٹمز روزانہ کے مسائل ہیں۔سی سی آئی کے بارے میں بھی دو طرح کی تشریح ہے ۔سی سی آئی اور کابینہ فیصلوں کا بھی معاملہ ہے تیل گیس کی مشترکہ ملکیت کا میکنزم نہیں سندھ بلوچستان کے پی کے سے چیئرمین سینیٹ کو عوامی عرضداشتیں موصول ہو رہی ہیں جس پر چیئر مین کمیٹی سینیٹر میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ تیل گیس پیداواری بلاکس کی ملکیت کا مسئلہ متنازعہ ہے وفاق اور صوبہ دونوں ملکیت کے دعویدار ہیں اور کہا کہ میری دیانت دارانہ رائے ہے کہ وزارت پٹرولیم عملی طور پر مشترکہ ملکیت پر عمل درآمد میں رکاوٹ ہے۔

سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ مشترکہ ملکیت کے فیصلے سے وزارت کو نقصان ہے۔صوبوں کو جو 50فیصدحصہ ملنا چاہئے تھا وہ بھی نہیں مل رہا ۔ایچ ای سی کے حوالے سے آگاہ کیاگیاکہ ایچ ای سی 2002میں آرڈینینس کے تحت بنا ا ور اٹھارویں ترمیم2010میں آئی ۔سندھ اور پنجاب نے اپنے اپنے ایچ ای سی بنا لئے ہیں۔ وزارت قانون اور ایچ ای سی ان کو غیر آئینی سمجھتا ہے معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں زیر التواء ہے۔

صوبوں کے بیرونی قرضہ جات لینے کے حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ اصول بننے تھے رقم کی حد مقرر ہونی تھی لیکن نہ رولز بنے نہ ایکنیک کا کردار طے ہوا۔متروکہ وقف املاک کے حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ پنجاب اور سندھ نے اختیارات مانگے ہیں ۔پنجاب حکومت کی اپیل سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے فیصلہ نہیں آیا لیکن وفاق نے ابھی تک سپریم کورٹ میں جواب داخل نہیں کرایا ۔

کمیٹی اجلاس میں سی سی آئی کا مستقل سیکرٹریٹ ابھی تک قائم نہ کرنے پر حیرانی کا ظہار کیا ۔آئینی ماہر ظفر اﷲ خان نے کہا کہ 1973کا آئین بناتے وقت کہا گیا تھا کہ ریلوے اور واپڈا کی وفاقی وزارتیں نہیں ہونگی دونوں محکمے سی سی آئی کے ذریعے چلائی جائینگے۔کمیٹی کو آگاہ کیاگیا کہ شکار گاہوں کے حوالے سے پنجاب حکومت کا اعتراض ہے کہ وفاقی کی بجائے صوبائی ملکیت ہو بیج، سرٹیفیکیشن اور پاسکو کو بھی صوبوں کی سطح پر چلایا جائے۔ایوان اقبال پر بھی پنجاب حکومت کا موقف صوبائی اختیار ہے ۔